شیر
پیارے بچّوں!
آج میں تمہیں شیر کے بارے میں بتاؤں گا۔ تم سب نے شیر کا نام تو سنا ہی ہے تم نے اسے دیکھا بھی ہوگا۔ اب تو ٹی وی پر ایسے چینل موجود ہیں جو جنگلی جانوروں اور پرندوں پر ڈاکیومینٹری دکھاتے رہتے ہیں۔ ہم نے اپنے بچپن میں سرکس میں زندہ شیر دیکھے تھے۔ بڑے شہروں میں چڑیا گھر میں بھی شیر رکھے جاتے ہیں۔بہت سی کتابوں میں ہم پڑھ چکے ہیں شیر ببر جانوروں کا بادشاہ کہلا تاہے ۔ یہ افر یقہ کے جنگل میں ممکن ہو سکتا ہے، جہاں ببر پائے جاتے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں شیر جنگل کے بادشاہ کے مانند حکومت کرتا ہوا پایا گیا ہے۔ شیر بلی کے خاندان میں سب سے بڑا جانور ہے۔ ہندی میں انہیں باگھ اور انگلش میں ٹائیگر کہا جاتا ہے۔اس کا رنگ بلی سے مختلف ہوتا ہے لیکن اس کے پنجے اور دانت اسی طرح تیز ہو تے ہیں جیسے اس کے چھوٹے بھائی چیتے اور بور یچےکے ہو تے ہیں۔ یہ درخت پر آسانی سے چڑھ سکتا ہے۔
شیر کو دیکھو تو پہلی چیز نظر آئےگی وہ اس کا خوبصورت رنگ ہے جو پھیکا زرد اور اس پر سیاہ لکیریں ہوتی ہیں۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ سال کے بہت حصّے میں گھاس آفتاب کی گرمی سے سوکھ جاتی ہے۔ شیر اس گھانس میں چھپ کر رہتا ہے دھوپ کا سایہ گھانس پر پڑ تا ہے۔ اس کے اثر سے شیر کے بدن پر رنگ بنتا ہے قدرت نے شیر کو جنگل میں محفوظ رہنے کے لئے گھانس کا رنگ دیا ہے۔ان کا رنگ زردی مائل ہوتا ہے اور اس میں بھوری یا سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔ جبکہ سفید شیر کا رنگ سفید اور سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔ ان میں دھاریوں کی تعداد تقریباً 100 کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ شیر کے دانت لمبے اور نکیلے گائے اور گھوڑوں سے بالکل مختلف گوشت کھانے کیلئے بنائے گئے ہیں۔ اپنے مضبوط، طاقتور اور شاندار جسم کی بدولت شیر بہترین شکاری ہوتے ہیں۔ شیر کو بطور علامت طاقتور، بہادر، ظالم اور سنگدل استعمال کیا جاتا ہے۔
شیر بہت اچھے تیراک ہوتے ہیں۔ ان کے شکار کرنے کا طریقہ بالکل بلی کی طرح ہے۔ یہ چھپ کر شکار کرتے ہیں۔ بتایا جاتا ہےکہ ایک شیر 50 کلو تک وزن اٹھا کر 2 میٹر اونچی رکاوٹ کو پھاند سکتا ہے۔
شیر بنگلہ دیش، بھوٹان، کمبوڈیا، ہندوستان، انڈونیشیا، میانمار، ملائیشیا، نیپال، شمالی کوریا، تھائی لینڈ، ویت نام اور روس کے مشرقی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
شیر بہت سے جانوروں کا شکار کر تا ہے لیکن ہرن کے لیے زیادہ تر رات میں گاؤں کے اطراف گشت لگا تا ہے۔ جب کوئی گائے یا بھینس مل جا تی ہے تب چھلانگ مار کر غریب جانور پر حملہ کر دیتا ہے اکثر حلق کو پکڑ تا اور گردن توڑ ڈالتا ہے۔ بعض وقت شیر بوڑھا اور کمزور ہو جا تا ہے اور وہ ہرن کو نہیں پکڑ سکتا۔ جانوروغیرہ کے پکڑ نے میں بھی دقت ہوتی ہے کیونکہ گاؤں کے لوگ اپنے جانوروں کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب ایسا ہو اور شیر بھوکا ہو جائے تب وہ آدمی پر حملہ کرنےلگتا ہے۔
آدم خور شیر اکثر گاؤں کے قریب رہنے ہیں اور تنہا جانے والوں پر حملہ کرتے ہیں ۔کہتے ہیں کوئمبٹورکے شمال میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک شیر رہتا تھا جس نے پچاس مرد اور عورتوں کو مارڈالا تھا۔
اب ہندوستان میں اتنے شیر باقی نہیں رہے۔ ہر سال جنوب اور میسور میں شیروں کی ا یک بڑی تعداد ماری جاتی رہی ہے۔ 1990 کے بعد اس رجحان میں کمی آئی ہے۔ شیر کے شکار کے لیےشکاری درخت پر مچان بناتے ہیں اور اس پر بیٹھ کر شیر کا شکار کرتے ہیں بعض دفعہ شیر شکاریوں پر حملہ کر دیتا ہے اور ان کو مار دیتا ہے۔
شیر نی شیر سے چھوٹی ہوتی ہے۔لیکن وہ زیادہ مکار اور خوفناک ہوتی ہے ۔
0 comments:
Post a Comment