واقعۂ شہادت
امام عالی مقام ؓ کی شہادت کا واقعہ انتہائی دلسوز ہے۔ اس کا بیان اس رسالہ میں تفصیل سے کیا گیا ہے۔یہ حسد ،بغض، ظلم و ستم ،احسان فراموشی کی ایسی داستان ہے جو آج مسلمانوں کا مقدر بن گئی ہے۔ مصنفِ کتاب نے ان تمام واقعات کا ذکر مختصر مگر جامع کیا ہے۔انشاءاللہ آئینہ اُن واقعات کو آپ کے سامنے آئندہ پیش کرے گا۔آج دس محرم ہے ہم تفصیل نہ بیان کرتے ہوئے حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا المناک ذکر لے کر حاضر ہیں۔
امام تشنہ کام کی شہادت
از: حضرت الحاج علامہ محمد حسام الدین صاحب مدظلہ
فغاں میں آہ میں فر یاد میں شیون میں نالے میں
سناؤں درد دل طاقت اگر ہو سننے والے میں
بلا آخر وہ قیا مت خیز ساعت بھی آگئی کہ امام بچوں کو کلیجے سے لگا کر عور توں کو صبر کی تلقین فرما کر اپنے بیمار مصیبت زدہ صاحبزادے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے رخصت ہو کر شامی فوج کی طرف بڑھے ۔ ہائے اس وقت کوئی اتنا بھی نہ تھا کہ رکاب تھام کر سوار کرا دے یا میدان تک ساتھ جائے پیاس کی شدّت سے امام رضی اللہ عنہ کے لب خشک تھے ۔حلق سوکھ رہا تھا ۔عزیزوں کے قتل سے دل فگار ہو رہا تھا۔ جی چھوٹ چکا تھا ۔اس لئے کوفیوں کے لئے آپ کا کام تمام کر دینا آسان تھا لیکن وہ لاکھ سنگ دل سہی پھر بھی مسلمان تھے جگر گوشئہ رسول کے خون کا بار اپنے سر پر نہ لینا چاہتے تھے ہمت کر کے بڑھتے اور پلٹ جاتے تھے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیاس لمحہ بہ لمحہ زیادہ بڑھتی جاتی تھی مگر کوئی گھونٹ بھر پانی بھی دینے والا نہ تھا۔ دریائے فرات کی طرف متوجہ ہوئے لیکن کوفیوں نے جانے نہ دیا۔ وہی تشنہ لب ہے کہ ایک مرتبہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں پانی نہ تھا حضرت حسین رضی اللہ عنہ پیاس سے رو رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے قرار ہوگئے اور اپنی زبان مبارک چُسا کر ان کی تسکین فرمائی۔
آہ صاحبِ انا اعطیناک الکوثر کا نواسہ اور یوں تشنہ کام رہے ؎
ائے تشنۂ کربلا شہید اکبر
سیر اب گلوئے تو زِ آبِ خنجر
تو آب نیا فتی ز دستِ امّت
اُمت ز تو آب خواہ روز مِحشر
آخر جب پیاس کی شدت ناقابل برداشت ہو گئی تو پھر ایک مرتبہ نرغۂ اعدا کی طرف سے فرات کی طرف بڑھے اور پانی تک پہنچ گئے، پانی لیکر پینا چاہتے تھے کہ حصین بن نُمیر نے ایسا تیر مارا کہ دہن مبارک سے خون کا فوارہ پھوٹ نکلا ، آپ نے ہاتھ میں خون لے کر آسمان کی طرف اچھالا کہ اے بے نیاز یہ لالہ گوں منظر تو بھی دیکھ لے اور عرض کی کہ خدا یا جو کچھ تیرے نبی کے نواسہ کے ساتھ کیا جا رہا ہے اس کا شکوہ تجھی سے کرتا ہوں ؎
دردوغم رنج و الم جورو جفا کرب و بلا
لاکھوں صدمے ہیں مگر سہنے کو ایک جان حسینؓ
جب شوریدہ بخت شامی ہر طرف سے امام پر ٹوٹ پڑے تو آپ نے بھی سخت حملہ کر دیا۔ اور جدھر رخ کیا دشمن کی صفین درہم برہم کر دیں۔ لڑائی نے طول کھینچا دشمنوں کے چھکے چھوٹ گئے ، نا گاہ امام کا گھوڑا کام آگیا پا پیادہ آپ نے وہ داد ِشجاعت دی کہ سواروں سے بھی ممکن نہیں ، آپ حملہ کرتے جاتےتھے اور فرماتے جاتےتھے ”آج میرے قتل پر جمع ہوئے ہو خدا کی قسم اگر تم نے مجھے قتل کیا تو خدا تم پر سخت عذاب نازل فرمائے گا۔“
بلآخر آپ بہت تھک گئے، زخموں سے سارا بدن چور ہو گیا۔ ۳۳ زخم نیزے، ۳۴ گھاؤ تلواروں کے لگے ہوئے تھے ، تیروں کا شمار نہیں، حالت لمحہ بہ لمحہ غیر ہو تی جا تی تھی ، باوجود اس کے کسی کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ آپ کو شہید کرے سب ایک دوسرے پر ٹال رہے تھے کہ شمر نے لشکر کو للکارا کیا انتظار کر رہے ہو حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر دو۔ اس پکار پر شامی چاروں طرف سے امام ہمام پر ٹوٹ پڑے۔ مالک بن شبر نے تلوار کا ایسا کا ری وار کیا کہ تلوار کلاہ مبارک کو کاٹتی ہوئی کاسہ سر تک پہنچ گئی، خون کا فوارہ پھوٹ نکلا ،ایک شخص نے تیر مارا تیر گردن میں آکر بیٹھ گیا، امام نے اس کو ہاتھوں سے نکالا۔
ابھی آپ نے تیر نکالا تھا کہ زرعہ بن شریک نے بائیں ہاتھ پر تلوار ماری پھر گردن پر وار کیا ، ان پیہم زخموں نے امام کو بلکل نڈھال کر دیا، اعضاء جواب دے گئےاور کھڑے ہو نے کی طاقت باقی نہ رہی۔ ؎
رخصت اے طاقت ایام وصال جاناں
آج مجبور ہیں کروٹ بھی بدل نے کے لئے
آپ اُٹھتے اور سکت نہ پا کر گر پڑتے تھے ۔عین اسی حالت میں سنان بن انس نے کھینچ کر ایسا کاری نیزہ مارا کہ وہ عرش کا تارہ زمین پر ٹوٹ کر گرا ، سنگ دل خولی بن یزید سر کاٹنے کے لئے بڑھا لیکن ہاتھ کانپ گئے تھرتھرا کر پیچھے ہٹ گیا اور سنان بن انس نے اس سر کو جو بوسہ گاہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تھا جسم اطہر سے جدا کر لیا۔ اور دس محرم اکسٹھ ھجری میں خاندان ِنبوی کا آفتابِ ہدایت ہمیشہ کےلئے روپوش ہوگیا۔ ریاض ِنبوی کا گل سرسبد ہمشہ کے لئے مرجھا گیا،علی کا چمن اجڑ گیا،اور فاطمہ کا گھر بے چراغ ہو گیا ۔
بے سر تن شاہ تشنہ کام است امروز + انا اللہ
بر آلِ رسول قتل عام است امروز +بے جرم و گناہ
اے تعزیہ داران حسینؓ مظلوم + نالید بدر و
بااللہ کہ دم زدن حرام است امروز + جز نالہ و آہ
0 comments:
Post a Comment