آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Friday, 18 September 2020

Aaina Urdu Qawaid

آئینہ اردو قواعد

لفظ یا کلمہ کی تعریف

جوبات ہمارے منھ سے نکلتی ہے اسے کلمہ یا لفظ کہتے ہیں ۔ پورا کلمہ یعنی ایک مکمل جملہ الفاظ کی مدد سے بنتا ہے۔ ان مفرد اور مرکب حروف کو ”حروف تہجی“ بھی کہا جاتا ہےجن کی کل تعداد اردو زبان میں 50 ہے جب کئی حروف ایک ساتھ مل جاتے ہیں تو وہ ،”لفظ“ بن جاتے ہیں مثلاً ۔ ع ۔ل۔م ۔ ملکر ”علم“ بن گیا۔  یہ ایک لفظ ہے۔ یا ق ۔ ل ۔ م مل کر ”قلم“  بنتا ہے۔

     اسی طرح کئی الفاظ مل کر ”جملہ“ بنا تے ہیں مثلاً  "علم حاصل کرو“ ، ”ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں“۔

     کلمہ یا لفظ کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ 

     1. مو ضوع   

    2. مہمل

     موضوع: وہ الفاظ جو بامعنی ہوں ۔ جیسے  مسجد، درخت، پھول

     مہمل: وہ الفاظ جس کے کوئی معنی مطلب نہ نکلتے ہوں ۔ جیسےمسجد وسجد ۔ درخت ورخت ۔ پھول وول ۔ چائے وائے ۔

     اوپر کی مثالوں میں وسجد،ورخت، سول مہمل  الفاظ ہیں۔ اسی لئے اردو قواعد میں اس کا نہ تو کوئی ذکر ہے اور نہ اس سے بحث کی جاتی۔ یاد رکھیئے اردو زبان میں صرف انھیں الفاظ سے بحث کی گئی ہے جو موضوع لفظ ہیں۔ یعنی بامعنی الفاظ ہیں انھیں بامعنی الفاظ کو ”کلمہ“ بھی کہا جاتا ہے۔

  کلمہ کی قسمیں  
فعل حرف اسم

 اسم  وہ کلمہ یا لفظ جس سے کسی شخص، چیز یا جگہ کا نام معلوم ہو۔

جیسے۔ غالب ، قلم ، تاج محل ، دہلی ، آم  وغیرہ  ۔

غالب ایک بڑا شاعر ہے۔

قلم میز پر رکھا ہے۔

تاج محل شاہ جہاں نے بنوایا۔

دہلی ہندوستان کی دارالسلطنت (راجدھانی) ہے۔

آم پھلوں کا راجہ ہے۔

اوپر دیے گئے جملوں میں نیلے رنگ سے لکھے گئے الفاظ اسم کہلاتے ہیں۔

حرف: وہ الفاظ جو دو اسموں یا اسم سے فعل کو آپس میں جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔

 تنہا بولنے یا لکھنے میں اس کے کوئی معنی نہیں نکلتے- 

مثال

 میں، تک ۔ پر ۔ سے ۔ کو ۔ نیچے ۔  اوپر وغیرہ ۔ 

 خالد کلاس میں ہے۔

دور دور تک کوئی نہیں تھا۔  شام تک آجانا ۔

کتاب میز پر ہے۔

انور نے نسیم سے بات کی۔

 احمد کو بلاؤ ۔

بلی کرسی کے نیچے بیٹھی تھی۔

کتاب میز کے اوپر رکھی ہے


فعل:

وہ کلمہ جس سے کسی کام کا ہونا یا کرنا ظاہر ہو۔

 مثلاً 

نوید دوڑتا ہے-

 بچّے کھیل رہے ہیں-

 ماسٹر صاحب آئے۔

ان جملوں میں ”دوڑتا ہے“، ”کھیل رہے ہیں“،”آئے“ فعل ہیں۔

  اقسام اسم  
اسم مشتق اسم مصدر اسم جامد

اسم جامد:

وہ اسم ہے جو نہ خود کسی سے نکلا ہو  اور نہ کوئی دوسرا لفظ اس سے نکلے جیسے ۔ آدمی ، چاقو   وغیرہ

اسم مصدر:

وہ لفظ جو خود کسی لفظ سے نہ نکلا ہو بلکہ اس سے اور کلمے نکلتے ہوں۔ مصدر میں فعل کا اظہار تو ہوتا ہے مگر فعل کے لوازم اس میں نہیں پائے جاتے یاد رکھیئے۔مصدر کی علامت " نا " ہے مثلاً دوڑنا ، پینا ،  کرنا ، ہو نا ، رونا وغیرہ۔

اسم مشتق:

وہ اسم جو کسی مصدر سے بنا ہو مثلاً کھانے والا ، ہنسوڑ ۔ تھکن ۔ لڑاکا ۔ گرتا پڑتا ۔ جھومتا ہوا وغیرہ ۔

    اقسام اسم جامد  
اسم نکرہ ( عام ) اسم معرفہ (خاص)

اسم معرفہ:

اسم معرفہ کو اسم خاص بھی کہتے ہیں یعنی وہ اسم جس سے کسی خاص شخص ، جگہ یا کسی خاص چیز کا نام سمجھا جائے مثلاً ۔ اقبال، دہلی ، چاندنی چوک ، قطب مینار وغیرہ۔

اسم نکرہ:

اس کو اسم عام بھی کہتے ہیں ۔ وہ اسم جس سے کسی خاص شخص ، چیز یا جگہ کا علم نہ ہو بلکہ وہ عام ہو جیسے لڑکا ، کتا ، مکان ، کتاب وغیرہ۔

    اقسام اسم معرفہ  
عرف کنیت تخلص لقب خطاب اسم علم (خاص)

اسم علم( خاص):

کسی فرد جگہ یا کسی خاص چیز کے نام کو کہتے ہیں-

 مثلاً دہلی ، لال قلعہ ، عمران وغیرہ ۔اسم علم کو اسم خاص بھی کہتے ہیں۔

خطاب:

بادشاہ یا امراء کی طرف سے جو اعزازی نام دیا جاتا ہے اسے خطاب کہتے ہیں  مثلاً خان بہادر ، بھارت رتن ، شمس العلماء ، عماد الملک وغیرہ۔

لقب:

وہ نام جو کسی خوبی یا بڑائی کی وجہ سے پڑ گیا ہو جیسے تاج العرفان، سلطان الہند، رستم ہند ، ملکہء ترنم ، بلبل ہند ، شیر خدا (حضرت علی کا لقب) ، جہانگیر ، کلیم اللہ وغیرہ۔

تخلص:

شاعر اپنے اصل نام کے علاؤہ ایک مختصر سا نام اور رکھ لیتا ہے جس کا استعمال وہ اپنے کلام کے آخری شعر میں کرتا ہے عام طور سے لوگ شعراء کو اس کے تخلص کے نام سے ہی جانتے ہیں 

مثلاً غالب ، حالی ، جگر ، فراق وغیرہ۔

کنیت:

وہ نام جو ماں باپ بیٹے بیٹی یا کسی اور کے تعلق سے مشہور ہو جائے کنیت کہلاتا ہے جیسے ابنِ مریم ، ام کلثوم ، ابو ہریرہ وغیرہ۔

عرف:

اصل نام کے علاؤہ کسی طرح کی نفرت یا پیار سے جو نام پر جاتا ہے اسے عرف کہتے ہیں جیسے مُکّو، منے، پُٹّن،لڈّو، کلو ، چنو ، گڑیا ، ناٹے ، ببلو ، ننھے میاں وغیرہ۔

     اقسام اسم نکرہ  
اسم ظرف  اسم صوت اسم آلہ اسم مکبر اسم مصغر اسم ذات (عام) 

  اسم ذات:

  کسی ایک عام چیز یا جنس کے نام کو کہتے ہیں مثلاً بلی ، دری ، پنسل ، دروازہ ، لڑکا وغیرہ ۔ اسم ذات کو اسم نکرہ یا اسم عام بھی کہتے ہیں۔

  اسم مصغر:

مصغر لفظ صغر سے بنا ہے جس کے معنی ہیں چھوٹائی ۔وہ لفظ جو کسی بڑی چیز کو چھوٹا کر کےلکھا جاتا ہے اسم مصغر کہلاتا ہے۔ جیسے

 ٹوکرا سے ٹوکری 

کھاٹ سے کھٹولہ 

 دیگ سے دیگچی 

 باغ سے باغیچہ 

 سہولت سے سہولیات وغیرہ۔

اسم مکبر:

لفظ مکبر کبیر سے بنا ہے جس کے معنی ہیں بڑا ۔وہ لفظ جو کسی چیز کو بڑا کر کے ظاہر کر اسم مکبر کہلاتا ہے جیسے بات کا بتنگڑ ، پگڑی پھٹ ، راہ کا شاہراہ ، کھٹ کا چھپر کھٹ وغیرہ۔

ان مثالوں میں بتنگڑ ، پگڑ ، شاہراہ اور چھپر کھٹ اسم مکبر ہیں ۔

اسم مکبر اور اسم مصغر 

اسم مصغر  اسم مکبر اسم مصغر اسم مکبر
لٹیا  لوٹا بالی بالا
صندوقچہ صندوق تھالی تھال
دریچہ در پہاڑی پہاڑ
مشکیزہ مشک ڈھولک ڈھول
شاہ شہنشاہ نالی نالا
سوار شہسوار  تھیلی تھیلا
کٹوری کٹورا گٹھری گٹھر
 گھڑی  گھڑیاں ڈبیہ ڈبا

 اسم آلہ:

 وہ اسم جو کسی آلہ ، اوزار یا ہتھیار کے نام کو ظاہر کرے مثلاً کترنی ، چھلنی، چاقو ، آری ، تلوار ، دست پناہ وغیرہ
اسم صوت:
 صوت کے معنی ہیں آواز چنانچہ وہ لفظ جو کسی مخصوص چیز یا جاندار کی آواز کو ظاہر کے اسم صوت کہلاتا ہے جیسے چھم چھم ، میاؤں میاؤں ، ٹن ٹن  ، بھو بھو ، قلقل وغیرہ
ان آواز کو سن کر سمجھا جا سکتا ہے یہ کس چیز کی آواز ہے۔
اسم ظرف:
 وہ اسم یا نام جو کسی جگہ یا وقت کو ظاہر کرے۔
اسم ظرف کی دو قسمیں ہیں
اسم ظرف مکان:
جو کسی جگہ کا تصور پیش کر ے مثلاً گئو شالہ ، گھر ، چراگاہ ، میکدہ ، کتب خانہ ، سرائے ، سسرال وغیرہ۔

اسم ظرف زمان:
 وہ اسم جو کسی وقت یا زمانہ کو ظاہر کرے جیسے صبح ، شام ، دوپہر ، سال ، ہفتہ ، ماہانہ وغیرہ۔

اقسام اسم مشتق
اسم فاعل، اسم مفعول ، اسم معاوضہ ، اسم حالیہ ، حاصل مصدر
اسم فاعل:
 وہ اسم جو کسی مصدر سے بنا ہو اور اسی مصدر (فعل) کے تعلق سے اس کام کے کرنے والے کو نام دیا جائے یا کام کرنے والا سمجھا جائے۔ جیسے دوڑنے والا ، پڑھنے والا ، ناچنے والی ۔
1۔ تیراک ۔ (مصدر تیرنا) چرواہا (مصدر چرانا ) گویا (گانا مصدر سے
2. قاتل ۔ ، ظالم ، کاتب وغیرہ ۔ اسم فاعل کی پہچان یہ ہے کہ اگر اس کے معنی نکالیں تو اس میں ،"والا"ضرور لگے گا مثلاً تیراک (تیر نے والا) قاتل (قتل کرنے والا )۔
اسم مفعول:
 وہ اسم جس پر فعل یا کام کا اثر واقع ہو ۔ اسم فاعل کی طرح یہ بھی مصدر سے بنتا ہے مثلاً ۔ جلا ہوا ۔ (جلنا مصدر سے) ستائی ہوئی  ، پڑھا ہوا وغیرہ
ماضی مطلق کے آگے"ہوا" یا ہوئی بڑھا دینے سے اسم مفعول بن جاتا ہے اس کے علاوہ فعل کے تعلق سے جو نام اس شخص یا چیز کو دیا جاتا ہے جس پر فعل کا اثر پڑتا ہے وہ بھی اسم مفعول ہے جیسے مقتول ، مظلوم ، (قتل کیا ہوا) (جس پر ظلم کیا گیا) (نظم کیا ہوا)
اسم معاوضہ:
کسی خدمت یا محنت مزدوری کے معاوضے کو جس لفظ سے ادا کیا جاتا ہے اسے اسم معاوضہ کہتے ہیں جیسے پکوائی رنگائی دھلائی سلائی وغیرہ ۔
اسم حالیہ
وہ اسم ہے جو فاعل یا مفعول کی کیف یت کو بتا تا ہے یاد رکھئے کہ یہ مصدرسے ہی بنتاہے مثلاً ناہید ہستی ہوئی آئی ۔ احمد گرتا پڑتا بھاگا ، مسکراتا ہوا بچہ وغیرہ ۔ ان جملوں میں ہستی ہوئی ، گرتا پڑتا ، مسکراتا ہوا اسم حالیہ ہیں۔
نوٹ ۔ اسم فاعل ، اسم مفعول ،اور اسم حالیہ کبھی کبھی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں مثلاً جانثار کرنے والے                        لوگ اب نہ رہے
اسم فاعل (صفت کے طور پر):     موصوف
عزت والی
اسم مفعول (صفت کی صورت میں)
عورت
موصوف
گرتی ہوئی
اسم حا لیہ
دیوار
موصوف
حاصل مصدر:
 اسم مشتق کی مندرجہ ذیل چاروں قسمیں جس طرح مصدر سے بنتی ہیں اسی طرح حاصل مصدر بھی مصدرسے ہی بنتاہے جو مصدر کے کام کی کیفیت یا اثر کو ظاہر کرتا ہے جیسے
مصدر       حاصل مصدر         مصدر     حاصل مصدر
تھکنا           تھکن                 لوٹنا             لوٹ
جیتنا          جیت                 چلنا             چال
ملانا           ملاوٹ               پوجنا           پوجا
ہنسا            ہنسی                رکنا              رکاوٹ
لڑنا              لڑائی                دوڑنا             دوڑ
گھبرا نا        گھبراہٹ            لینا دینا         لین دین
چمکنا           چمک               ملنا                ملن
سجانا            سجاوٹ           بچنا              بچاؤ
بکنا              بکواس              مسکرانا۔        مسکراہٹ
ٹھگنا            ٹھگی                چھڑکنا          جھڑ کاؤ

فاعل اور اسم فاعل میں فرق
 کسی بھی کام کے کرنے والے کو فاعل کہتے ہیں جیسے راشد پڑھتا ہے ، وہ کھیل تا ہے، حاکم نے بہت ظلم کیا۔ رامو قتل کر کے بھاگا ان جملوں میں رشد ، وہ ، حاکم ، رامو فاعل ہیں ان کا نام کرنے والے کام کے تعلق سے نہیں پکارا گیا ہے اس لئے یہ فاعل کہلائیں گے لیکن جب کسی کام کے کرنے والے کو اس کے کام سے نسبت دیکر پکاریں گے تو ہم اس کو اسم فاعل کہیں گے جیسے ظالم نے بہت ظلم کیا ۔ قاتل قتل کر کے بھاگ گیا ۔
ان جملوں میں ظالم اور قاتل اسم فاعل ہیں کیونکہ یہ اپنے فعل قتل کرنا ، ظلم کر نا کی نسبت سے اس نام سے پکارے گئے ہیں۔
مفعول اور اسم مفعول میں فرق
 مفعول اس شخص یا چیز کو کہتے ہیں جس پر فعل کا اثر پڑتا رہا ہو جیسے راشد کتاب پڑھتا ہے وہ کرکٹ کھیلتا ہے ۔ ان جملوں میں کتاب اور کرکٹ مفعول ہیں۔
نوٹ ۔ فعل کے ساتھ کیا لگا کر سوال کر نے پر جو جواب ملے عموماً وہی مفعول ہوتا ہے اور اگر مفعول جملے میں ظاہر یا پوشیدہ طور پر ہے تو یہ بھی سمجھ لیجئے کہ اس جملہ کا فعل" فعل متعدی" ہے ورنہ " فعل لازم" مثلاً وہ آم کھا تا ہے چمپا خط لکھ رہی ہے ۔ میں نمائش دیکھوں گا ۔ یہ جاننے کے لئے کہ ان جملوں کے فعل متعدی ہیں یا لازم خود سے لفظ کیا لگا کر اس طرح سوال کرئے۔
سوال ۔۔ کیا کھا تا ہے ؟  کیا لکھ رہی ہے؟ کیا دیکھوں گا؟
جواب ۔۔     آم                   خط                 نمائش
یہی مفعول ہیں اور اس شخص یا شے کو اسم مفعول کہیں گے جس پر فعل کا اثر پڑتا رہا ہو بشرطے کہ اس کا نام فعل ہی کے تعلق سے رکھا گیا ہو ۔ جیسے مظلوم ، مقتول ، مکتوب وغیرہ ۔
اسم فاعل ، اسم مفعول اور حاصل مصدر ان تینوں کا آپسی تعلق فعل کے اعتبار سے کہاں تک ہے اس کےلئے ذیل میں ملاحظہ کریں۔


فعل (مصدر) کی قسمیں
فعل معروف ، فعل مجہول ، فعل لازم ، فعل متعدی ، فعل ناقص
مصدر کی پہلی تعریف پہلے لکھی جا چکی ہے . اب ان سے بننے والے افعال اور ان کی قسموں کے بارے میں آپ کو مختصر طور پر بتا ہیں۔
فعل معروف:
۔وہ فعل ہے جس کا فاعل یعنی کام کر نے والا معلوم ہو جیسے سہیل آیا ، طلعت پڑھتی ہے ، وہ کھیلے گا۔
فعل مجہول:
اس فعل کو کہتے ہیں جس کا فاعل معلوم نہیں ہوتا مثلاً کپڑے دھل گئے ، آٹا پیسا ، دروازہ کھلا ، مکان بن گیا وغیرہ کپڑے کا ڈھولنا آٹے کا پانا دروازے کا کھلنا یا مکان کا بن جا نا خود بخود نہیں ہوا ہے بلکہ یہ کام کسی کے ذریعہ کیا گیا ہے اس کو اس طرح کہ سکتے ہیں موہن کے ذریعہ دروازہ کھلا۔ اس طرح کے فعل کو فعل مجہول یا طور مجہول کہتے ہیں مثلاً خط لکھا گیا ، تالا کھولا گیا وغیرہ۔
فعل لازم:
 وہ فعل جس کا اثر صرف فاعل تک ہی محدودرہے یعنی وہ صرف اپنے فاعل کے ساتھ مل کر پورا ہو جا تا ہے جیسے وہ آیا ، بچی روتی ہے ، نجمہ ہنسے گی وغیرہ۔
فعل متعدی:
 وہ فعل جس کا اثر فاعل کے علاوہ کسی اور (مفعول) شخص یا چیز پر پڑے جس جملہ میں یہ فعل ہو تا ہے وہ صرف فاعل سے پورا نہیں ہوتا بلکہ مفعول کا بھی محتاج ہو تا ہے مثلاً اس نے کھا یا ، راشد اخبار پڑھتا ہے ، احمد خط لکھے گا فعل متعدی میں فاعل کے ساتھ مفعول کا ہونا ضروری ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ ظاہر بھی ہو جملہ میں مفعول پوشیدہ بھی ہو سکتا ہے جیسے محسن نے کھا یا، حامد دیکھتا ہے ان جملوں میں کیا کھا یا ؟ کیا دیکھتا ہے ظاہر نہیں ہے  مگر کچھ نہ کچھ ضرور کھا یا ہو گا  اور حامد کچھ نہ کچھ ضرور دیکھتا ہو گا وہی پوشیدہ چیز مفعول ہے ان دونوں صورتوں میں ان کے افعال فعل متعدی ہیں  اس کے علاوہ "نے"  جو علامت فاعلی ہے فاعل کے فوراً بعد فعل مضارع کے ساتھ  جب بھی آئے تو سمجھ لیجئے کہ یہ فعل متعدی ہے مثلاً منظور نے کہا  ، ہم نے سنا  ان جملوں میں کہا  اور سنا فعل متعدی ہیں جس طرح "نے" علامت فاعلی ہے اسی طرح "کو" علامت مفعولی ہے  جیسے میں نے موہن کو مارا ۔ پولس نے چوروں کو پکڑ لیا۔
فعل ناقص:
ھ فعل ناقص وہ فعل ہیں جس میں کسی کام کا کرنا نہیں پا یا جا تا بلکہ" ہونا " پایا جا تا ہے اس لئے اس کا کوئی فاعل نہیں ہو تا بلکہ اسم بجائے فاعل کے مبتدا کہلاتا ہے اور جملہ کا بقیہ جز جو حالات یا کسی طرح کی خبر دیتا ہے خبر کہلاتا ہے جیسے رامو چور ہے ، لڑکے میدان میں ہیں خالد ذہن تھا ، وہ بیمار تھی ، میں جھوٹھا نہیں ہوں۔
مندرجہ بالا جملوں میں ہے ،  ہیں ، تھی ، تھا ، ہوں فعل ناقص ہیں ۔
 زمانہ کے لحاظ سے فعل کی قسمیں
فعل ماضی ، فعل حال ، فعل مستقبل ، فعل مضارع ، فعل امر ، فعل نہی
آپ جانتے ہیں کہ زمانے تین ہیں ماضی ، حال ، مستقبل
زمانہ ماضی:
 وہ زمانہ یا وقت جو گزر چکا ہو
زمانہ حال:
موجودہ زمانہ یعنی وہ وقت جس میں کام جاری ہو ۔
زمانہ مستقبل:
  آنے والے زمانہ یا وقت کو زمانہ مستقبل کہتے ہیں
اب آپ زمانہ کے لحاظ سے فعل کی چھ قسموں کے بارے میں پڑھیں گے۔
فعل ماضی:
وہ کام ( فعل ) جو گزرے ہوئے زمانہ میں کیا گیا ہو۔ جیسے شہناز آئی ، میں نے خط لکھا تھا ، وہ پڑھ رہا تھا ۔
فعل حال:
 وہ فعل جو موجودہ زمانہ میں کیا جا رہا ہو جیسے محمود لکھتا ہے  ، لڑکیاں کھیل رہی ہیں ، تم گاتے ہو اس کی پہچان یہ ہے کہ فعل کے ساتھ تا ، تی ، تے  یا رہا ، رہی ، رہے آتا ہے جیسا کہ فعل حال کی مثالوں سے واضح ہے ۔
فعل مستقبل:
 وہ فعل جو آنے والے زمانہ میں کیا جائے گا مثلاً ہم جائیں گے ، ٹرین آئےگی ، تم کامیاب ہو گے۔
فعل مضارع:
اس میں زمانہ حال اور زمانہ مستقبل دونوں کی جھلک پائی جاتی ہے یعنی دونوں زمانوں کے لئے بولا جاتا ہے جیسے وہ آئے تو میں جاؤں ۔ اگر وہ نہ ملے تو آپ آجائیں ۔ طلباء پڑھیں تو کامیاب ہوں وغیرہ ان مثالوں میں آئے ، جاؤں ، ملے ، آئیں ، پڑھیں ، کامیاب ہوں فعل مضارع ہیں
فعل امر:
 امر کے معنی حکم کے ہیں یہ وہ فعل ہے جس میں کسی کام کے کرنے کا حکم دیا جائے یا درخواست کی جائے جیسے  پانی پلاؤ ، سبق یاد کرو ، جائیے تشریف رکھیئے فعل امر ہیں ۔
فعل نہی:
 وہ فعل جس میں کسی کام کے لئے منع کیا جائے اس میں فعل کے ساتھ مت  یا نہ آتا ہے جیسے مت رو ، بارش میں مت بھیگو دھوپ میں نہ کھیلو ، شور نہ کرئیے وغیرہ ۔
فعل ماضی کی قسمیں
ماضی مطلق ، ماضی قریب ، ماضی بعید ، ماضی استمراری ، ماضی شکیہ ، ماضی تمنائی
فعل ماضی کی مندرجہ بالا چھ قسمیں ہیں ان کی تعریف معہ مثالوں کے حسب ذیل ہیں ۔
ماضی مطلق:
وہ فعل ہے جس سے کسی کام کے زمانہ ماضی میں ہونے کی صرف خبر ملتی ہے یہ نہیں معلوم ہو تا کہ اس کام کو ختم ہو ہے دیر ہوئی یا ابھی ختم ہوا ہے  جیسے فیضان آیا ، شاہد دوڑا ، اسلم نے لکھا ، لڑکے اعظم گڑھ گئے  میں روئی ۔
ماضی قریب:
 وہ فعل جو زمانہ ماضی میں تو ہواہو مگر اس کو ختم ہونے زیادہ دیر نہ ہوئی ہو مثلاً فیضان آیا ہے ، شاہد دوڑا ہے ، اسلم نے لکھا ہے ، لڑکے اعظم گڑھ گئے ہیں میں روئی ہوں
ماضی مطلق اور ماضی قریب دونوں کی مثالوں کو پڑھنے سے اس بات کا علم ہو جائے گاکہ فعل ماضی مطلق میں " ہے " " ہیں " " ہوں " لگا دینے سے ماضی قریب بن جاتا ہے ۔
ماضی بعید:
 وہ فعل جس کو گزرئے ہوئے زمانہ میں ختم ہو ہے کافی دیر

اعظم گڑھ گئے تھے ۔ میں روئی تھی ۔ ان مثالوں کو دیکھنے سے آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ فعل ماضی مطلق کے آگے تھا ، تھے ، تھی بڑھا دینے سے ماضی بعید بن جاتا ہے ۔ ماضی مطلق کی مثالوں کو دیکھئے۔
ماضی استمراری:
اس کو ماضی ناتمام بھی کہتے ہیں یہ فعل ظاہر کرتا ہے کہ گزشتہ زمانہ میں کام کچھ عرصہ تک جاری تھا۔
 مثال: 
اس میدان میں کھیلتے تھے۔
 ہر روز تفریح کو جایا کرتے تھے۔
" میں رفیع کے گانے سنا کرتا تھا۔
  بچپن میں تم دیر تک سویا کرتی تھی۔وغیرہ
ماضی شکیہ:
وہ فعل جو زمانہ ماضی میں ہوا ہو مگر اس میں شک یا شبہہ پا یا جا تا ہو جیسے وہ آیا ہو گا  ، عرفان دوڑا ہو گا ، منصور نے لکھا ہو گا لڑکے کھیلنے گئے ہوں گے ، بچی روئی ہوگی ۔
نوٹ ۔۔ فعل ماضی مطلق کے آگے ہو گا ، ہونگے ، ہوگی لگا کر فعل ماضی شکیہ بن جا تا ہے۔
ماضی تمنائی یا شرطیہ:
 وہ فعل ماضی جس میں کوئی تمنا یا شرط پائی جانے ۔ جیسے اگر تم آتے تو میں چلتا۔ کاش تم پڑھتے تو ضرور کامیاب ہو جاتے۔ وہ گری ہوتی اگر میں نہ پکڑ تا ، خدا تم کو کامیاب کرے۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ اوپر کے جملوں میں آتے ، چلتا ، پڑھتے ، کامیاب ہو جاتے ، نہ پکڑ تا ، کامیاب کرے ایسے افعال ہیں جن میں کوئی تمنا یا شرط پائی جاتی ہے ان کو فعل ماضی تمنائی یا شرطیہ کہتے ہیں۔

حرف کا بیان
جیساکہ پہلے آپ کو بتا یا جا چکا ہے کہ کلمہ کی تین قسمیں ہیں ان میں۔ ایک حرف بھی ہے  ۔ جس کی تعریف اس طرح ہے
حرف وہ الفاظ یا کلمہ ہیں جو دو اسموں یا دو جملوں کو آپس میں جوڑنے یا ربط پیدا کر نے کے لئے بولے یا لکھے جاتے ہیں تنہا بولنے پر یہ کوئی معنی پیدا نہیں کر تے جیسے ۔ سے ، تک ، کی ، پر ، اور وغیرہ ۔
میں لکھنؤ سے آیا 
آسمان تک گرد ہی گرد تھی ۔
دانش کی گھڑی ٹوٹ گئی ۔
کتاب میز پر ہے ۔
رفیق اور شمشاد ساتھ رہتے ہیں ۔

اقسام حروف
حروف کی بہت سی قسمیں ہیں جن میں سے کچھ خاص قسموں کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے ۔
حروف جار:
 جن کی مدد سے جملے بنتے اور با معنی ہو جا تے ہیں۔
 یا وہ حروف جو کسی اسم کو فعل کے ساتھ ملائیں حروف جار کہلاتے ہیں مثلاً 
میں ، سے ، پر ، تک ، کو ، آگے، اوپر وغیرہ  
ملتزم ہفتم جماحت میں پڑھتا ہے۔(ہفتم۔ساتویں)
احمد نے محمود سے کتاب لی۔
قلم اور کاپیاں میز پر رکھی ہیں۔
اکبر نے قلعہ تک پیدل سفر کیا۔
سلیم کو سب معلوم ہو چکا تھا۔
انور کی گاڑی سب سے آگے تھی۔
انور اوپر بڑھتا گیا۔

حروف عطف:
مفرد کلموں یا جملوں کو آپس میں ملا نے والے الفاظ حروف عطف کہلاتے ہیں جیسے
 اور ، و ، کر ، بھی ، پھر وغیرہ  
استاد اور شاگرد
  نیک وبد 
 نہا کر آنا 
 مار کر بھی چین نہ ملا 
لکھ لو پھر پڑھنا ۔
 حروف شرط و جزا:
 وہ حروف جس سے کسی شرط کے بد لے میں حاصل ہو نے والی چیز  جزا کا اظہار ہو جیسے اگر جب جو  ورنہ وغیرہ اگر تم آئے تو میں چلوں گا ورنہ آرام کروں گا ۔ جو لڑکے محنت کرتے ہیں وہی پاس ہوتے ہیں۔ ان جملوں میں اگر ، جو حروف شرط ہیں اور تو ورنہ ، وہی  ، حروف جزا ہیں ۔
حروف تحسین:
تحسین کے معنی ہیں تعریف کر نا  چنانچہ وہ کلمات  جو تعریف کے موقع پر  بو لے جاتے ہیں مثلاً  کیا کہنا ، بہت خوب ، شاباش ، ماشاءاللہ ، مرحباً وغیرہ حروف تحسین ہیں
حروف تعجب:
 وہ الفاظ جو کسی تعجب کے موقع پر بو لے جاتے ہیں جیسے سبحان اللہ ، اللّٰہ اکبر ، اوہ ، ارے واہ ، آہا ۔
حروف تاسف:
ان کلمات کو کہتے ہیں جو کسی افسوس یا غم کے موقع پر بو لے یا لکھے جاتے ہیں جیسے  آہ ، ہائے ، حیف ، وائے نصیب اف ، افسوس ، داحسر تا ہہیہات وغیرہ ۔
 حروف نفریں: 
نفر ین کے معنی نفرت کے ہیں جن کلمات سے کسی طرح کی نفرت معتارت یا بیزاری کا اظہار ہوتا ہے انھیں حروف نفریں کہتے ہیں مثلاً " چھی چھی "  ، لعنت ، تف  توبہ توبہ وغیرہ
حروف استفہام :
استفہام عربی کا لفظ ہے جس کے معنی ہے پوچھنا چنانچہ وہ کلمے جو کسی سوال کے پوچھنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں حروف استفہام کہلاتے ہیں مثلاً
 کیوں کہاں ، کب ، کیسے ، کون ، کیا ، کس لئے ؟ وغیرہ۔
تم آخر کیوں جانا چاہتے ہو؟
تاج محل کہاں ہے؟
تم کب پٹنہ جاؤ گے؟
کیا میں اندر آسکتا ہوں؟
قطب الدین ایبک کیسے مارا گیا؟
واجد علی شاہ کون تھے؟
کیا تم نے کھانا کھایا؟
تم کس لیے آئے ہو؟
حروف ندا:
 وہ کلمات جو کسی کو مخاطب کر نے یا پکار نے کے لئے استعمال ہو تے ہیں  جیسے
 * یا اللہ رحم کر!
* ارے بھائی ذرا سننا!
* صاحبو میری بات سمجھو!
یا اللہ، او ، ارے  ، اے ، اجی ، دوستوں، صاحبو وغیرہ حروفِ ندا ہیں۔

حروف اضافت:
 وہ کلمات جو دو اسموں یا ضمیر اور اسم کے درمیان جوڑ نے کا کام کرتے ہیں حروف اضافت کہلاتے ہیں مثلاً ۔
 شاہد کا گھر۔
 طلعت کی کتاب۔
  بچوں کے جوتے۔
 ان میں ۔ کا ، کی ، کے اضافت ہیں ۔ 
حروف اضافت کی کئی قسمیں ہیں جن میں یہی تینوں اضافتیں جملوں کے اعتبار سے مختلف نوعیت میں استعمال ہو تی ہیں ۔
اقسام اضافت
اضافت تملیکی ، اضافت توضیحی ، اضافت ظرفی  ، اضافت تخصیصی ، اضافت بیانی ،  اضافت تشبیہی ، اضافت استعارہ 
جن جملوں کو حروف اضافت ( کا ، کی ، کے ) کے ذریعہ جوڑتے ہیں وہ جملے مرکب اضافی کہلاتے ہیں ان میں ایک مضاف دوسرا مضاف الیہ ہو تا ہے جس اسم کو اس میں نسبت دی جاتی ہے اسے مضاف اور جس کی طرف نسبت دی جاتی ہے اسے مضاف الیہ کہتے ہیں مثلاً اکبر کا گھوڑا ، نمرود کی آگ  ، گھر کا چراغ 
ہند کے بہادر  ۔
مضاف الیہ  مضاف  ان مثالوں میں  ( کا ، کی ، کے ) حروف اضافت ہیں اردو میں مضاف الیہ پہلے اور مضاف بعد میں آتا ہے جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے لیکن فارسی میں اس کا برعکس ہو تا ہے یعنی مضاف پہلے اور مضاف الیہ بعد میں آتا ہے اوپر کی دی ہوئی اردو مثالوں کو فارسی الفاظ کے ساتھ اضافت کی بدلی ہوئی ترکیب کو دیکھئے ۔۔                   
اسپ احمد ، نار نمرود ، چراغِ خانہ ، بہادران ہند ، چشمہ کہسار  وغیرہ ۔
آپ نے دیکھا کہ فارسی تراکیب میں اضافت ( کا ، کی ، کے ) کو زیر( / ) اور حمزہ( ء ) کی علامتوں کے ذریعہ ظاہر کر تے ہیں ان لفظوں کے اردو معنی نکالنے کے لیے الٹے پڑھنا چاہیے یعنی پہلے مضاف الیہ پھر مضاف  جیسے اسپ احمد "احمد کا گھوڑا " نار نمرود " نمرود کی آگ "  چشمہ کہسار " پہاڑ کے چشمے ۔
آئیے اب آپ کو اضافت کی قسموں میں سے ہر ایک کی بابت مختصر طور پر بتا دیں۔
اضافت تملیکی :
  وہ اضافت ہے جس میں مضاف الیہ مالک اور مضاف مملوک ہو جیسے  اکبر کا گھوڑا ، ناہید کی کتاب ، کسانوں کے کھیت وغیرہ ان مثالوں میں کا کی کے اضافت تملیکی ہیں ۔
اضافت تو ضیحی:
 وہ اضافت جس کے جملے میں  کوئی بات عام ہو مگر اس کی وضاحت کر کے اس کو مخصوص کر دیا جائے  اس میں مضاف الیہ خاص  اور مضاف عام ہو تا ہے جیسے لال قلعہ کی دیواریں  ، متھرا کے پیڑے  ، آم کا باغ  سندیلے کے لڈو  وغیرہ ۔
اضافت ظرفی ;
اضافت کی یہ وہ قسم ہے  جس میں مضاف الیہ ظرف ( کوئی جگہ یا بر تن )  اور مضاف مظروف ( وہ چیز جو کسی بر تن  میں یا کسی جگہ پر بو) جیسے کنویں کا پانی ، کتب خانہ کی کتاب ،  ٹوکری کے آم  ،  ان میں کنویں ، کتب خانہ اور ٹوکری ظرف ہیں جبکہ پانی ، کتاب ، اور آم مظروف ہیں اور کا ، کی ، کے اضافت ظرفی ہیں ۔
4- اضافت تخصیصی:
 اس کو اضافت نسبتی بھی کہتے ہیں یہ وہ اضافت ہے جس میں مضاف الیہ کے سبب سے مضاف میں کوئی خصوصیت یا نسبت پیدا ہو جائے جیسے تمہارا بھائی ، ہمارا مکان وغیرہ اگر چہ ان جملوں میں کا ، کی ، کے نہیں آئے ہیں مگر خصوصیت کے باعث یہ اضافت پائی جاتی ہے۔
5- اضافت بیانی
وہ اضافت جس میں مضاف اس مادہ سے بنا ہو جو مضاف الیہ ہے  مثلاً  پیتل کا لو ٹا لکڑی کی میز  لوہے کا دروازہ چاندی کے کڑے وغیرہ۔ جب کسی مادہ سے کوئی چیز تیار کی گئی ہو اور اس کی وضاحت کر نے کے لئے کا ، کی ، کے اضافتیں آئیں تو  وہ  اضافت بیانی کہلائیں گی۔
6- اضافت تشبیہی:
 تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ کا ہونا لازمی ہے پس ان دونوں کے درمیان جو بھی اضافت کا ، کی ، کے آئےگی وہ اضافت تشبیہی کہلائے گی  جیسے غصہ کی آگ  ، زلف کا سانپ ، پتھر کا جگر وغیرہ  فارسی تراکیب کے لحاظ سے صورت خیال ، تصویر سنگ ، اسیر یاس ، نخل تمنا ،  باغ تمنا  ، آئینہ دل وغیرہ۔
7- اضافت استعارہ:
مستعار اور مستعار منہہ کے درمیان جو اضافت آتی ہے اسے اضافت استعارہ کہتے ہیں جیسے ۔ عقل کے ناخن ، فکر کے پاؤں حیا کی چادر وغیرہ۔

غفار ، کریم ، نزیر ، قہار ، حفیظ وغیرہ ۔
2 ۔ صفت نسبتی ۔۔۔۔۔۔ وہ صفت ہے جو کسی شخص یا چیز کا لگاؤ (نسبت) کسی دوسرے شخص یا چیز سے ظاہر کرے مثلاً  پشاوری ٹوپی ، سنہری مسجد ، بنگالی رسگلے ،  دہلوی ، عیسوی ، کشمیر ی شال ، مصری سوداگر ، نورانی چہرہ وغیرہ ان میں پیشاوری ، سنہری ، بنگالی ، عیسوی ، کشمیری مصری اور نورانی صفت نسبتی ہیں ۔
اسم       صفت نسبتی     وہ اسم جس کو نسبت دی گئی
پشاور       پشاوری                   ٹوپی
سونا         سنہری                    مسجد
بنگال        بنگالی                    رسگلے
دہلی         دہلوی                     دہلی سے
عیسیٰ        عیسوی                  حضرت عیسیٰ سے
کشمیر        کشمیری                  شال
مصر           مصر ی                   سوداگر
نور             نورانی                    چہرہ
3- صفت عددی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ صفت جس کسی اسم کی تعداد رتبہ یا ترتیب کے لحاظ سے درجئے شمار معلوم ہوں جیسے چار لڑکیے ، دو کرسیاں ، کچھ لوگ ، پانچواں مکان ، تہائی آبادی ، دوگنا آدمی ، تھوڑے روپے وغیرہ
4- صفت مقداری ۔۔۔۔ وہ صفت جس سے کسی چیز کی مقدار معلوم ہو یہ صفت صرف ان چیزوں کے لئے آتی ہے جن کو گنتی میں نہ  بتا کر ناپ (وزن) یا مقدار میںی بتا یا جاتا ہو جیسے تین کیلو بھی ، مٹھی بھر چاول ، سیر بھر چینی ، گز بھر کپڑا تھوڑا سا دودھ ، چلو بھر پانی وغیرہ ۔
صفت اور متعلق فعل کا فرق ۔۔۔ صفت اسم کی وضاحت کر تا ہے ۔ جیسا کہ آپ نے اوپر کے بیان اور مثالوں میں دیکھا اس کے برعکس متعلق فعل صرف فعل کی وضاحت کرتا رہا جیسے مینہہ لگاتار برستا رہا ، رات شبنم بہت گری میں ضرور جائوں گا ، اوشا تیز دوڑ تی ہے ۔
مندرجہ بالا مثالوں میں لگا تار بہت  ضرور تیز  متعلق فعل ہیں جو بالترتیب ، برستا رہا، گری ، جائوں گا ، دوڑتی ہے افعال متعلق فعل کی وضاحت کر تے ہیں۔
صفت مشبہ اور اسم فاعل کا فرق ۔۔۔ صفت مشبہ وہ صفت ہے جو کسی کی ذات میں مستقل طور پر پایا جانے جیسے ٹھوس ، سبز ، شریف وغیرہ جبکہ اسم فاعل میں کوئی وصف ہمیشہ کےلئے نہیں ہوتا بلکہ وقتی طور پر اس فعل کے تعلق سے اس کو نام دے دیا جاتا ہے جیسے کھیل نے والا ( کھلاڑی) درس دینے والا ( مدرس ) تصنیف کرنے والی ( مصنفہ) گانے والا گویا اسی طرح قاتل ظالم کاتب وغیرہ اسم فاعل ہیں ۔ اسم فاعل کی پہچان یہ ہے کہ اس کے معنی میں فعل کے ساتھ عموماً لفظ "والا " لگتا ہے جیسے قاتل قتل کرنے والا ۔
ترکیب صرفی اور ترکیب نحوی
ترکیب صرفی: جیسا کہ آپ کو پہلے بتایا جاچکا ہے کہ علم صرف میں جملہ کے ہر لفظ کے بابت بتایا جاتا ہےکہ وہ  قواعد کے اعتبار سے کلمہ کی کون سی قسم ہے اس کہ علاؤہ اس کی جنس تعداد اور حالت کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ترکیب نحوی:علم نحو سے ہمیں جملوں کی ساخت اور اس کے اجزاء کا علم ہو تا ہے مثلاً کون سا جزو فاعل ، مفعول، فعل متعدی ، فعل لازم ہے یا مبتدا ، خبر اور فعل ناقص ہے اس کی علاؤہ یہ سب اجزاء مل کر کس قسم کا جملہ بناتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
1- ترکیب صرفی کی کچھ مثالیں
 نوید اچھے کپڑے پہنتا ہے۔
نوید ۔  اسم معرفہ(خاص) مذکر ، واحد ، حالت فاعلی ۔
اچھے ۔ صفت مشبہ ، موصوف کپڑے مذکر ، جمع ۔
کپڑے ۔ اسم نکرہ (عام) مذکر ، جمع ، حالت مفعولی
پہنتا ہے ۔ فعل متعدی زمانہ حال ،  مذکر ، واحد غائب اس کا فاعل نوید ۔
2- میں آج اسکول پیدل جائوں گا ۔
میں ۔ ضمیر متکلم ، واحد مذکر ، حالت فاعلی
آج ۔ اسم ظرف زمان ۔
اسکول ۔ اسم نکرہ (عام) واحد مذکر ، طرف مکان
پیدل ۔ متعلق فعل (جائوں گا ) ۔
جائوں گا ۔ فعل لازم زمانہ مستقبل مذکر ، واحد ، اسکا فاعل ،"میں"
3- انور کے کھلونے میز پر ہیں ۔
انور اسم معرفہ ( خاص ) مذکر ، واحد ، مضاف الیہ ۔
کے ۔ حرف اضافت
کھلونے ۔ اسم نکرہ  (عام ) جمع ، مذکر ، مضاف ، حالت اضافی ۔
میز ۔ اسم نکرہ (اسم عام) واحد ، مؤنث ۔
پر ۔ حرف جار
ہیں ۔ فعل ناقص ، زمانہ حال ، جمع غائب
                   ترکیب نحوی کی چند مثالیں
                  
1-  بچے     کیلے        کھاتے ہیں 
     فاعل     مفعول     فعل متعدی   جملہ مفرد خبریہ
     مبتدا               خبر
     2- آپ کا دوست کہاں سے آیا ہے ۔
     دوست ۔    مبتدا
     آپ کا  ۔     توسیع مبتدا          جملہ مفرد انشائیہ
     آیا ہے  ۔      خبر
     کہاں سے ۔   توسیع خبر              

 شاعری کے اجزاء

قافیہ اور ردیف
قافیہ:
قافیہ ان حروف اور حرکت وہ مجموعہ ہےجو ہم آواز ہوتے ہیں مگر الفاظ بدلے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ غیر مستقل طور پر اشعار دوسرے مصرعے کے آخر میں مگر ردیف سے پہلے بار بار آتے ہیں۔
ردیف:
  ردیف وہ حرف یا حروف ہیں جو شعر کے دوسرے مصرعے کے سب سے آخر میں یعنی قافیہ کے بعد مستقل طور پر آتے ہیں۔ ردیف کے حرف یا حروف بدلتے نہیں۔
ذیل کی غزل کے چند اشعار سے ردیف اور قافیہ  دونوں کی مثالیں واضح ہو جائیں گی۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اوپر کی غزل کے دوسرے مصرعےمیں ہم آواز الفاظ کاروبار،یار، غمگسار،دار ایسے الفاظ ہیں جو تقریباً ہم آواز ہیں مگر الفاظ بدلے ہوئے ہیں۔ یہی قافیہ کہلاتی ہیں جو ردیف ”چلے“ سے پہلے آتے ہیں۔اسی طرح ہر شعر کے دوسرے مصرعہ کے آخر میں لفظ ”چلے“ بار بار آیا ہے یہی ردیف ہیں جو قافیہ کے بعد بار بار آتے ہیں۔
مطلع: مطع کے لغوی معنی ہیں طلوع ہونے کی جگہ مگر علم بیان میں غزل یا قصیدے کے ب سے پہلے شعر کو مطلع کہا جاتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم ردیف اور ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ مثلاً فیض کی مذکورہ غزل کا سب سے پہلا شعر
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
:مصرعہ
شاعری کی سب سے چھوٹی اکائی ہے۔موزوں کلام کی ایک سطر (لائن) کو مصرعہ کہا جاتا ہے۔
:شعر
موزوں کلام کی دو سطروں یعنی دو مصرعوں کو ملا کر ایک شعر بنتا ہے پہلا مصرعہ اوّل اور دوسرا مصرعہ ثانی کہلاتا ہے۔
:وزن و بحر
وزن کی شرط،پہلے شاعری کیلئے ضروری سمجھی جاتی تھی۔اب بے وزن اور نثری شاعری بھی کی جاتی ہے۔ وزن سے مراد وہ مقررہ پیمانہ ہے جس پر ہم شیر کو پرکھتے ہیں۔عروض(شعر کے پہلے مصرعے کا آخری جز) کے ماہروں نے کچھ پیمانے یہ اوزان کی ہیں۔ ہر شعر کا کسی پیمانے کے مطابق ہونا ضروری ہے۔شاعری میں آہنگ جب کے قصیدے میں دو مطلع ایک دوسرے سے دور بھی ہو سکتے ہیں۔
:تخلص
وہ مختصر نام جو شاعر اپنے نام کی جگہ اپنی پہچان کے لئے شاعری میں لاتا ہے،تخلص کہلاتا ہے۔
مثلاً اسداللہ خاں بیگ کا تخلص غالب۔کبھی شاعر اپنے نام کا ہی کوئی حصہ اپنا تخلص بنا لیتا ہے۔مثلاً میر تقی کا تخلص میر اور مومن خاں کا تخلص مومن ہے۔تخلص کی پہچان کے لیے اس پر ایک مخصوص نشان بنا دیا جاتا ہے
کتابیات:
اردو زبان و قواعد از شفیع احمد صدیقی

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری