اکبر الہ آبادی طنز و اصلاح کا شاعر
اکبر الہ آبادی کی ولادت غدر سے 11 سال قبل 12 نومبر 1846ء کو قصبہ بارہ
جو الہ آباد سے 12 میل دور ہے میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم والد ماجد سید تفضل
حسین رضوی ابو العلائی جو کہ خود ایک مایہ ناز عالم و فاضل تھے اُن سے
ہوئی۔ 10 ہی برس کی عمر میں فارسی کی اعلیٰ کتابیں ختم کرلیں۔1866ء میں
وکالت کا امتحان پاس کیا۔ اور 1880ء میں منصف کے عہدے پر فائز ہوئے۔ شاعری
کا شوق شروع ہی سے رہا۔ اکبر کے کلام میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ انہوں نے
نہایت معمولی اور عام فہم لفظوں کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن انہیں معمولی اور
عام فہم الفاظ کو اس چابکدستی سے استعمال کیا کہ پڑھ کر ایک عجیب لطف آتا
ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اکبر نے بازاری اور مبتذل الفاظ کو اس بلندی پر
پہنچایا کہ وہ بھی ادب کا ایک جز بن گئے۔ اکبر نے انگریزی الفاظ کو بھی اس
انداز سے اپنے اشعار میں ضم کیا کہ اسے بھی اردو کا ایک حصّہ بنا دیا۔
اکبر کا قلم صنعت لفظی میں ہے کامل
پروفیسر سید حسن لکھتے ہیں:
”زبان کے معاملے میں اکبر آزاد خیال تھے۔ اُن کی رائے تھی کہ حالات کے
تقاضوں اور وقت کی ضرورتوں کے لحاظ سے اس میں وسعت پیدا کرنی چاہیے اور
جدید خیالات اور نئے مضامین کو ادا کرنے کے لیے جو اسلوب مناسب ہو اسے
ضرور کرنا چاہیے۔“
یہاں اکبر کا یہ شعر بھی لکھ دینا مناسب ہےجس میں اکبر نے اس انداز
میں اعتراف کیا ہے
اشعار غیر سے تو مجھے کم سند ملی
’من گفتم و محاورۂشد‘سے مدد ملی
اکبر چونکہ ایک دیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے،ایک علمی اور مذہبی خاندان کے چشم و چراغ تھے اس لیے کلام میں دینداری، تصوف، محبت الٰہی اور خوف ِخدا کا عنصربہت پایا جاتا ہے۔اس موضوع پر اکبر کےچند اشعار یہ ہیں۔
تصوف ہی زباں سے دل میں حق کا نام لایا ہے
یہی مسلک ہے جس میں فلسفہ اسلام لایا ہے
جدائی نے مَیں بنایا مجھکوجدا نہ ہوتا تو میں نہ ہوتا
خدا کی ہستی ہے مجھ سے ثابت خدا نہ ہوتا تو کچھ نہ ہوتا
سب سے بدتر بتوں سے ہے امید
سب سے بہتر خدا سے ڈرنا ہے
ذہن میں جو گھر گیالا انتہا کیوں کر ہوا
جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا
جب ہم حسن و عشق کے میدان میں آتے ہیں تو اس میں بھی اکبر غالب و حسرت سے کسی طرح پیچھے نظر نہیں آتے۔حسرت جیسی سادگی اور بے ساختگی آپ کے اشعار کی زینت معلوم ہوتی ہے۔وہی تغزل اور وہی رنگ جو کہ غالب کا ہے اکبر کے اشعار میں بھی نظر آتا ہے۔
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
دشمن راحت جوانی میں طبیعت ہو گئی
جس حسیں سے مل گئی آنکھیں محبت ہو گئی
غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا##### آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا
تشبیہ ترے چہرے کی کیا دوں گل تر سے#####ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام#####وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
اکبر کی عشقیہ شاعری کی مدت زیادہ لمبی نہیں ہو پاتی کہ رنج و غم کا طوفان بعض عزیزوں کی اچانک موت کی صورت میں اکبر کو گھیر لیتا ہے اور انہیں حسرت و یاس کا ایک مجسمہ بنا دیتا ہے۔ اکبر کی حساس طبیعت اپنے عزیزوں کی موت سے متاثر ہوکر اُن کی شاعری پر اثر انداز ہوجاتی ہے۔اور ان کے دل کا درد اس طرح ظاہر ہوتا ہے
اس گلستاں میں بہت کلیاں مجھے تڑپا گئیں
کیسوں لگی تھی شاخ میں کیسوں بے کھلے مرجھا گئیں
اس قدر درد ہو تو ضبط کہاں
دل کو آخر کراہنا ہی پڑا
تدبیر کی کوئی حد نہ رہی بالآخر کہنا ہی پڑا
اللہ کی مرضی سب کچھ ہے بندے کی تمنا کچھ بھی نہیں
تماشائے جہاں اے بے خبر تجھکو مبارک ہوں
یہاں دل داغ حسرت سے بھرا ہے دل لگی کیسی
جہاں گھر تھا وہاں قبریں جہاں دل تھا وہاں شعلے
یہ ماتم خیز منظر سامنے ہے دل لگی کیسی
اکبر نے طنز و مزاح سے قوم کی اصلاح کو اپنی شاعری کا مقصد بنایا۔اکبر نے قوم کو اس بھنور سے نکالنے کا بیڑہ اٹھایا جس میں کہ ہندوستانی قوم نہایت تیزی سے پھنستی جارہی تھی ۔ اکبر قدیم تہذیب کے پیرو اور مشرقیت کے دلدادہ تھے اس لیے ہم آج بھی اکبر کے بعض اشعار پڑھتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اکبر نے معاشرے کے صرف منفی پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اکبر نے تصویر کے ایک ہی رخ پر نظر رکھی ہے لیکن ہم اس امر سے انکار نہیں کرسکتے کہ اکبر نے جس رخ کو اجاگر کیا و مکمل طور سے درست نہیں تھا اور اُن کی تنقید مستقبل کے لیے مناسب نہیں تھی۔ اکبر نےجب سائنس کی مذمت کی تو وہ یہاں تک سوال کر بیٹھے
کبھی سائنس کے ان دیوتاؤ ں سے ذرا پوچھو
یہ مشت خاک کیوں کر جان کے سانچے میں ڈھلتی ہے
جو ایر شپ پر چڑھے تو ایسے کہ بس ہمیں ہیں خدا نہیں ہے
جو ایر شپ سے گرے تو ایسے کہ لاش کا بھی پتہ نہیں ہے
آج کی نئی نسل جب اکبر کے ان اشعار کو پڑھے گی تو شاید انہیں دقیانوسی قرار دے گی اور ان کے اشعار کو انسان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھے گی لیکن ایسا نہیں تھا اکبر ان اشعار سے ان انسانی قدروں کو باقی رکھنے کی وکالت کر رہے ہوتے ہیں جو سائنسی ترقی کی آڑ میں دم توڑ رہی تھیں۔اکبر کا سائنسی ایجات پر طنز دوڑ ماضی کی طرف اے گردش ایام تو...کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ وہ ترقی کی خوش گمانی میں انسانی قدروں کو درکنار کردینے کے مخالف تھے۔
رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے:
”اکبر نے اپنے عہد میں نہ مولویوں کو منہ لگایا نہ ترقی پسندوں سے مرعوب ہوئے، نہ انگریز حاکموں کی پروا کی، نہ لیڈروں کو خاطر میں لائے۔ اس عہد میں شاید ایسا شخص نہ تھاجس نے انگریزی حکومت کا ملازم رہ کر حکومت کی ایسی خبر لی ہو۔“
لیکن یہ بات پوری طرح درست نہیں۔ اکبر نے کہیں براہ راست حکومت کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ اس کے ذریعہ تہذیب و تمدن پر پڑنے والے برے اثرات کو ابھارا ہے۔ پروفیسر سید حسن لکھتے ہیں:
”اگرچہ انہوں نے مغربی تہذیب اور انگریزیت کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے لیکن حکومت کے خلاف برملا لکھنے سے وہ ہمیشہ احتیاط برتتے۔ انہیں اپنے ’مدخولۂ گورنمنٹ ‘ہو نے کا برابر احساس رہا۔ وہ اس بات پر پریشن ہوجاتے اگر اُن کا کوئی شعر یا مضمون حکومت کی نظر میں مشتبہ سمجھا جاتا۔“
اس اتباس سے یہ باتواضح ہوجاتی ہے کہ اکبر فطرتاً نرم مزاج تھے۔اکبر نے قوم کی اصلاح کا کام تو بخوبی کیا لیکن حسرت و جوہر کی طرح کھل کر مخالفت کبھی نہیں کی۔انہوں نے انگریزی حکومت کے خلاف کبھی بھی بیباکانہ رویہ نہیں اپنایا بلکہ بعض اشعار میں تو سلطنت برطانیہ کی حمایت اور تعریف ہی کی ہے۔
مانا کہ رشی ہو تم اور اچھا دل ہے
فطرت کی طرف سے مغربی عاقل ہے
بھائی گاندھی سے کوئی کہدے کہ جناب
انگریز سے جیتنا بہی مشکل ہے
اکبر نے قومی تحریکوں ، جنگ آزادی اور سیلف گورنمنٹ کے مطالبہ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا اور اس پر اس طرح طنز کے تیر برسائے
جے کی بھی صدا آئے گی چرخے بھی چلیں گے
لیکن یہ سمجھ لیجیے صاحب نہ ٹلیں گے
یہ پو لیٹیکل حرص یہ ہنگامہ ہے بے سود
اس سے کوئی چیز اپنی جگہ سے نہ ہلے گی
بھائی بھائی میں ہاتھا پائی
سلف گورنمنٹ آگے آئی
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اکبر نے انگریزوں کی مخالفت کو بالکل غلط سمجھا۔ محمد طفیل نقوش کے طنز و مزاح نمبر میں لکھتے ہیں:
”تعلیم اکبری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اصل الزام خود ہم پر ہے، ہم اگر حرص و ہوس کے بندے نہ ہوتے تو صیاد جال ڈالنے کی تکلیف ہی کیوں گوارا کرتا۔ہاون اگر نہ ہو تو دستہ کس چیز پر“
اس مسئلہ کا حل اکبر کے اس شعر سے صاف ہوجاتا ہے
زباں اکبر کی اس طرز سخن پر ناز کرتی ہے
بھجن کی دھن میں تردید بت طناز کرتی ہے
0 comments:
Post a Comment