اَنّ دیوتا
دیویندر ستیارتھی
دیویندر ستیارتھی 1908-2003 دیوندر ستیارتھی پنجاب کے ضلع سنگرور میں پیدا ہوئے ۔ 1925 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور ڈی اے وی کا لج لاہور میں داخلہ لیا۔ 1927 میں تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جگہ جگہ گھوم کر انھوں نے ہزاروں لوک گیت جمع کیے۔ کچھ عرصے تک دہلی میں انڈین فارمنگ کی ادارت کی ۔ 1948 سے 1956 تک آج کل (ہندی) کے مدیر رہے۔ 1976 میں انھیں پدم شری کے اعزاز سے نوازا گیا۔ ان کا انتقال دہلی میں ہوا۔ دیوندر ستیارتھی کی پہلی اردو کہانی ’اور بانسری بجتی رہی‘ لاہور کے مشہور رسالے ’ادب لطیف‘ میں شائع ہوئی۔ ’نئے دیوتا‘ ، ’اور بانسری بجتی رہی‘ اور ’چائے کا رنگ‘ ان کے اردو افسانوں کے مجموعے ہیں ۔ ان کے علاوہ ’دھرتی گاتی ہے‘، ’میں ہوں خانہ بدوش‘ اورگائے جا ہندوستان‘ لوک گیتوں کے مجموعے ہیں۔ دیوندر ستیارتھی نے اردو کے علاوہ ہندی اورپنجابی میں بھی علمی اور ادبی سرمایہ چھوڑا ہے۔ ان کے افسانوں کی بنیاد دیومالا ؤں اور لوک گیتوں پر ہے۔ |
تب اَن دیو، برہما کے پاس رہتا تھا۔ ایک دن برہما نے کہا ”او بھلے دیوتا! دھرتی پر کیوں نہیں چلا جاتا ؟‘‘
اِن الفاظ کے ساتھ چنتُو نے اپنی دل پسند کہانی شروع کی۔ گونڈوں کو ایسی بیسیوں کہانیاں یاد ہیں۔ وہ جنگل کے آدمی ہیں، اور ٹھیک جنگل کے درختوں کی طرح اُن کی جڑیں دھرتی میں گہری چلی گئی ہیں۔ مگر وہ غریب ہیں، بھُوک کے پیدائشی عادی۔ چنتُو کو دیکھ کر مجھے یہ گمان ہوا کہ وہ بھی ایک دیوتا ہے جو دھرتی کے باسیوں کو اَن دیو کی کہانی سُنانے کے لیے آنکلا ہے۔ گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ اَلاؤ کی روشنی میں بغل کی پگڈنڈی کسی جوان گونڈن کی مانگ معلوم ہوتی تھی۔ گھوم پھر کر میری نگاہ چنتو کے جھریوں والے چہرے پر جم جاتی۔ کہانی جاری رہی۔۔۔
دیوتا دھرتی پر کھڑا تھا۔ پر وہ بہت اُونچا تھا۔ بارہ آدمی ایک دوسرے کے کندھوں پر کھڑے ہوتے، تب جاکر وہ اُس کے سر کو چُھو سکتے۔
ایک دن برہما نے سندیس بھیجا۔ یہ تو بہت کٹھن ہے، بھلے دیوتا! تجھے چھوٹا ہونا ہوگا۔ آدمی کا آرام تو دیکھنا ہوگا۔
دیوتا آدھا رہ گیا۔ پر برہما کی تسلّی نہ ہوئی۔ آدمی کی مشکل اب بھی پوری طرح حل نہ ہوئی تھی۔ اُس نے پھر سندیس بھیجا اور دیوتا ایک چوتھائی رہ گیا۔ اب صرف تین آدمی ایک دوسرے کے کندھوں پر کھڑے ہوکر اس کے سر کو چُھوسکتے تھے۔
پھر آدمی خود بولا۔ ’’تم اب بھی اُونچے ہو، میرے دیوتا!‘‘
اَن دیو اور بھی چھوٹا ہوگیا۔ اب وہ آدمی کے سینے تک آنے لگا۔ پھر جب وہ کمر تک رہ گیا تو آدمی بہت خوش ہوا۔
اُس کے جسم سے بالیں پھوٹ رہی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ سونے کا پیڑ کھڑا ہے۔
آدمی نے اُسے جھنجھوڑا اور بالیں دھرتی پر آگریں۔
میں نے سوچا اور سب دیوتاؤں کے مندر ہیں۔ مگر اَن دیو، وہ کھیتوں کا قدیمی سرپرست، کُھلے کھیتوں میں رہتا ہے، جہاں ہر سال دھان اُگتا ہے نئے دانوں میں دودھ پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔
ہلدی بولی۔ ’’اب تو دیوتادھرتی کے بیچوں بیچ کہیں پاتال کی طرف چلا گیا ہے۔‘‘
چنتُو نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ ایسا بھیانک کال اُس نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔ دھرتی بنجر ہوگئی تھی۔
ہلدی پھر بولی۔ ’’اور دیوتاؤں کی طرح اَن دیو بھی بہرہ ہوگیا ہے۔‘‘
سال کے سال ہلدی اَن دیو کی منت مانتی تھی۔ ایک ہلدی پر ہی بس نہیں، ہر ایک گونڈ عورت یہ منت ماننا ضروری سمجھتی ہے۔ مگر اس سال دیوتا نے ایک نہ سُنی۔ کس بات نے دیوتا کو ناراض کردیا؟ غصّہ تو اور دیوتاؤں کو بھی آتا ہے مگر اّن دیو کو تو غصّہ نہ کرنا چاہیے۔
ہلدی کی گود میں تین ماہ کا بچہ تھا۔ میں نے اُسے اپنی گود میں لے لیا۔ اس کا رنگ اپنے باپ سے کم سانولا تھا۔ اُسے دیکھ کر مجھے تازہ پہاڑی شہد کا رنگ یاد آرہا تھا۔
ہلدی بولی۔ ’’ہائے! اَن دیو نے میری کوکھ ہری کی اور وہ بھی بھوک میں اور لاچاری میں۔‘‘
بچہّ مسکراتا تو ہلدی کو یہ خیال آتا کہ دیوتا اُس کی آنکھوں میں اپنی مسکراہٹ ڈال رہا ہے۔ پر اس کا مطلب ؟ دیوتا مذاق تو نہیں کرتا؟ پھر اُس کے دل میں غصّہ بھڑک اُٹھتا۔ دیوتا آدمی کو بھوکوں بھی مارتا ہے اور مذاق اُڑا کر اُس کا دِل بھی جلاتا ہے۔
چنتو بولا۔ ’’اس کی کہانی، جو میں آج کی طرح سَو سَو بار سُنا چکا ہوں، اب مجھے نری گپ معلوم ہوتی ہے۔‘‘
ہلدی یہ نہ جانتی تھی کہ چنتو کا طنز بہت حد تک سطحی ہے۔ یہ وہ بھی سمجھنے لگی تھی کہ دیوتا روز روز کے پاپ ناٹک سے ناراض ہوگیا ہے۔
’’اَن دیو کو نہیں مانتے پر بھگوان کو تو مانوگے۔‘‘
’’میرا دِل تو تیرے بھگوان کو بھی نہ مانے۔ کہاں ہیں اس کے میگھ راج؟ اور کہاں سو رہا ہے وہ خود؟ ایک بُوند بھی تو نہیں برستی!‘‘
’’دیوتا سے ڈرنا چاہیے اور بھگوان سے بھی۔‘‘
چنتو نے سنبھل کر جواب دیا۔ ’’ضرور ڈرنا چاہیے۔ اور اب تک ہم ڈرتے ہی رہے ہیں!‘‘
’’اب آئے نا سیدھے رستے پر۔ جب میں چھوٹی تھی ماں نے کہا تھا دیوتا کے غصّہ سے سدا بچیو!‘‘
’’اری کہا تو میری ماں نے بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ پر کب تلک لگا رہے گا یہ ڈر، ہلدی ؟‘‘
دیوتا پھر خوش ہوگا اور پھر لہرائے گا وہی پیارا پیارا دھان۔
کال میں پیدا ہوئے بچّے کی طرف دیکھتے ہوئے میں سوچنے لگا۔ ’’اِتنا بڑا پاپ کیا ہوگا کہ اِتنا بڑا دیوتا بھی آدمی کو چھماں (معاف) نہیں کر سکتا!‘‘
کال نے ہلدی کی ساری سُندرتا چھین لی تھی۔ چنتو بھی اب اپنی بہار کو بھول رہا تھا۔۔۔ درخت اب بھی کھڑا تھا مگر ٹہنیاں پُرانی ہوگئی تھیں اور نئی کونپلیں نظر نہیں آتی تھیں۔
ہلدی کا بچہ میری گود میں رونے لگا۔ اُسے لیتے ہوئے اُس نے سہمی ہوئی نگاہ سے اپنے خاوند کی طرف دیکھا۔ بولی ’’یہ کال کب جائے گا؟‘‘
’’جب ہم مرجائیں گے اور نہ جانے یہ تب بھی نہ جائے۔‘‘
’’یہ کَنکی اور کودوں دھان کی طرح پانی نہیں مانگتے۔ یہ بھی نہ اُگے ہوتے تو ہم کبھی کے بھوک سے مر گئے ہوتے۔۔۔ اُنھوں نے ہماری لاج رکھ لی۔۔۔ ہماری بھی، ہمارے دیوتا کی بھی۔‘‘
’’دیوتا کا بس چلتا تو اُنہیں بھی اُگنے سے روک دیتا۔‘‘
’’ایسا بول نہ بولو۔ پاپ ہوگا۔‘‘
’’میں کب کہتا ہوں پاپ نہ ہو۔ ہو، سَو بار ہو۔‘‘
’’نہ نہ، پاپ سے ڈرو۔ اور دیوتا کے غصّہ سے بھی۔‘‘
میں نے بیچ بچاؤ کرتے ہوئے کہا ’’دوس تو سب آدمی کا ہے۔ دیوتا تو سدا نردوس ہوتا ہے۔‘‘
رات غمزدہ عورت کی طرح پڑی تھی۔ دُور سے کسی خُونی درندے کی دھاڑ گونجی۔ چنتُو بولا۔ ’’اِن بھوکے شیروں اور ریچھوں کو اَن دیو مِل جائے تو وہ اسے کچّا ہی کھاجائیں۔‘‘
بیساکُھو کے گھر روپے آئے تو ہلدی اسے بدھائی دینے آئی۔ ’’بپتا میں پچیس بھی پانچ سو ہیں۔ رامُو سدا سکھی رہے۔‘‘
’’اَن دیو سے تو رامو ہی اچھا نکلا۔‘‘ بیساکھو نے فرمائشی قہقہہ لگاکر کہا۔
چنتو بولا۔ ’’ارے یار چھوڑ اس اَن دیو کی بات۔۔۔۔‘‘
’’ہلدی نے اپنے خاوند کو سر سے پاوں تک دیکھا۔ اس طنز سے اُسے چڑ تھی۔ دیوتا کتنا بھی بُرا کیوں نہ ہوجائے، آدمی کو تو اپنا دل ٹھیک رکھنا چاہیے، اپنا بول سنبھالنا چاہیے۔‘‘
غُصّے میں جلی بھُنی ہلدی اپنی جھونپڑی کی طرف چل دی۔ بیساکھو نے پھر قہقہہ لگایا۔ ’’واہ بھئی واہ۔ اب بھی اَن دیو کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔‘‘
چنتو بولا۔ ’’جپنے دو اُسے اَن دیو کی مالا۔‘‘
رامو بمبئی میں تھا۔ چنتُو سوچنے لگا۔ کاش اس کا بھی بھائی وہاں ہوتا اور پچیس روپیے نہیں تو پانچ ہی بھیج دیتا۔
بیساکھو نے پوسٹ مین کو ایک دونی دے دی تھی۔ مگر اُسے اِس بات کا افسوس ہی رہا۔ بار بار وہ اپنی نقدی گنتا اور ہر بار دیکھتا کہ اُس کے پاس چوبیس روپے چودہ آنے ہیں، پچیس روپے نہیں۔
جھونپڑی میں واپس آیا تو چنتو نے ہلدی کو بے ہوش پایا۔ اُس نے اُسے جھنجھوڑا۔ ’’رسوئی کی بھی فکر ہے۔ اب سوؤ نہیں، ہلدی۔ دوپہر تو ڈھل گئی۔۔۔‘‘
اُس وقت اگر خود اَن دیو بھی اُسے جھنجھوڑتا تو ہوش میں آنے کے لیے اُسے کچھ دیر ضرور لگتی۔
تھوڑی دیر بعد ہلدی نے اپنے سرہانے بیٹھے خاوند کی طرف گھور کر دیکھا۔ چنتُو بولا۔ ’’آگ جلاؤ ہلدی۔۔۔! دیکھتی نہیں ہو۔ بھوک سے جان نکلی جارہی ہے۔‘‘
’’پکاؤں اپنا سر؟‘‘
چنتُو نے ڈرتے ڈرتے سات آنے ہلدی کی ہتھیلی پر رکھ دیے اور اُس کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولا۔ ’’یہ بیساکھو نے دیئے ہیں، ہلدی، اور میں سچ کہتا ہوں میں نے اُس سے مانگے نہ تھے۔‘‘
ہلدی شک بھری نگاہوں سے چنتو کی طرف دیکھنے لگی۔ کیا آدمی غریبی میں اِتنا گِرجاتا ہے؟ مگر چنتو کے چہرے سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اُس نے مانگنے کی ذلیل حرکت نہیں کی تھی۔ اور پھر جب ایک ایک کرکے سب کے سب پیسے گنے تو اُس کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔۔۔ چار روز دال بھات کا خرچ اور چل جائے گا۔
’’شکر ہے۔ اَن دیو کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔‘‘
’’اَن دیو کا یا بیساکھو کا؟‘‘
’’اَن دیو کا جس نے بیساکھو بھائی کے دل میں یہ پریم بھاؤ پیدا کیا۔‘‘
چنتو کا چہرہ دیکھ کر ہلدی کو سُوکھے پتے کا دھیان آیا جو ٹہنی سے لگا رہنا چاہتا ہو۔ دُور ایک بدلی کی طرف دیکھتی ہوئی بولی؟ ’’کاش! بوندا باندی ہی ہوجائے‘‘ مگر تیز ہوا بدلی کو اُڑا لے گئی۔ اور دھرتی بارش کے لیے برابر ترستی رہی۔
کال نے زندگی کا سب لُطف برباد کردیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا دھرتی رو دے گی۔ مگر آنسوؤں سے تو سُوکھے دھانوں کو پانی نہیں ملتا۔ اَن دیو کو یہ شرارت کیسے سوجھی؟ مان لیا کہ وہ خود کسی وجہ سے کسانوں پر ناراض ہوگیا ہے مگر بادلوں کا تو کِسانوں نے کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ وہ کیوں نہیں گھِر آتے؟ کیوں نہیں برستے؟ کاش وہ دیوتا کی طرفداری کرنے سے انکار کردیں!
چار ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔
اُس روز یہاں دو تین سو گونڈ جمع ہوئے۔ پھڈکے صاحب اور منشی جی دھان بانٹ رہے تھے۔ اپنے حصّے کا دھان پاکر ہر کوئی دیوتا کی جے مناتا۔۔۔ اَن دیو کی جے ہو۔
چنتو گاؤں کی پنچایت کا دایاں بازو تھا۔ دھان بانٹنے میں وہ مدد دے رہا تھا۔ لوگ اس کی طرف احسان مندانہ نگاہوں سے دیکھتے اور وہ محسوس کرتا کہ وہ بھی ایک ضروری آدمی ہے۔ مگر لوگ دیوتا کی جے جے کار کیوں مناتے ہیں؟ کہاں ہے ۔۔۔ وہ خود بھی شاید دیوتا ہے۔۔۔ اور شاید اَن دیو سے کہیں ۔۔۔
ہلدی نے سوچا کہ یہ دھان شاید اَن دیو نے بھیجا ہے۔ اُسے دُکھیارے گونڈوں کا خیال تو ضرور ہے۔ مگر جب اُس نے پھڈ کے صاحب اور منشی جی کو حلوا اُڑاتے دیکھا تو وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ پہلے تو اُس کے جی میں آئی کہ حلوے کا خیال اب آگے نہ بڑھے۔ پر یہ خیال بادل کی طرح اُس کے ذہن پر پھیلتا چلا گیا۔
قحط سبھا سے ملا ہوا دھان کِتنے دن چلتا؟
چنتو کے چہرے پر موت کی دُھندلی پرچھائیاں نظر آتی تھیں، مگر وہ دیوتا سے نہ ڈرتا تھا۔ کبھی کبھی گھُٹنوں کے بل بیٹھا گھنٹوں غیرشعوری طور پر گالیاں دیا کرتا۔ میں نے سمجھا کہ وہ پاگل ہو چلا ہے۔ دو چار بار میں نے اُسے روکا بھی۔ مگر یہ میرے بس کی بات نہ تھی۔ وہ دیوتا کو اپنے دل سے نکال دینا چاہتا تھا۔ مگر دیوتا کی جڑیں اُس کے جذبوں میں گہری چلی گئی تھیں۔
ایک دن چنتو بہت سویرے اُٹھ بیٹھا اور بولا۔ ’’دیوتا اَب دھنوانوں کا ہوگیا ہے۔۔۔ پاپی دیوتا! اری میں تو نہ مانوں ایسے دیوتا کو۔‘‘
’’پر نہیں، میرا دیوتا تو سب کا ہے۔‘‘
’’سب کا ہے۔ اری پگلی، یہ سب گیان جھوٹا ہے۔‘‘
’’پر دیوتا تو جُھوٹا نہیں۔‘‘
’’تو کیا وہ بہت سچا ہے؟ سچا ہے تو برکھا کیوں نہیں ہوتی؟‘‘
’’دیوتا کو بُرا کہنے سے دوس ہوتا ہے۔‘‘
’’ہزار بار ہو۔۔۔ وہ اب ہمارے کھیتوں میں کیوں آئے گا؟ وہ دھنوانوں کی پُوری کچوری کھانے لگا ہے۔ نِردھن گونڈوں کی اب اُسے کیا پروا ہے؟‘‘
چنتو کی نکتہ چینی ہلدی کے من میں غم گھول رہی تھی۔ اُس نے جھونپڑی کی دیوار سے ٹیک لگا لی اور دھیرے دھیرے اچھے وقتوں کو یاد کرنے لگی، جب بھوک کا بھیانک مُنہ کبھی اتنا نہ کُھلا تھا۔ وہ خوشی پھر لَوٹے گی، دیوتا پھر کھیتوں میں آئے گا۔ اُس کی مسکراہٹ پھر نئے دانوں میں دُودھ بھر دے گی۔ اس کے من میں عجب کشمکش جاری تھی۔ دیوتا۔۔۔! پاپی۔۔۔؟ نہیں تو۔۔۔ وہ باہر چلا گیا تو کیا ہوا۔ کبھی تو اُسے دَیا آئے گی ہی۔
ہلدی سنبھل کر بولی۔ ’’سچ مانو، میرے پتی، دیوتا پھر آئے گا یہاں۔۔۔‘‘
چنتو کا بول اور بھی تیکھا ہوگیا۔ ’’اری اب بس بھی کر، تیرا دیوتا کوئی سانپ تھوڑی ہے کہ تیری بین سُن کر بھاگا چلا آئے گا؟‘‘
اُس دن رامو بمبئی سے لوٹ آیا۔ اُسے دیکھ کر ہلدی کی آنکھوں کو ایک نئی زبان مِل گئی۔ بولی۔ ’’سناؤ، رامو بھائی، بمبئی میں دیوتا کو تو تم نے دیکھا ہوگا۔‘‘
رامو خاموش رہا۔
میرا خیال تھا کہ رامو نے بمبئی میں مزدور سبھا کی تقریر سن رکھی ہوں گی اور صاف صاف کہہ دے گا کہ اَن آدمی آپ اُپجاتا ہے اپنے لہُو سے، اپنے پسینے سے۔ اگر آدمی، آدمی کا لہو چوسنا چھوڑ دے تو آج ہی سنسار کی کایا پلٹ جائے۔ کال تو پہلے سے پڑتے آئے ہیں، بڑے بڑے بھیانک کال۔ مگر اب سرمایہ دار روز روز کسانوں اور مزدوروں کا لہو چوستے ہیں اور غریبوں کے لیے تو اب سدا ہی کال پڑا رہتا ہے۔ اور یہ کال چُھومنتر سے نہیں جانے کا۔ اس کے لیے تو سارے سماج کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔
ہلدی پھر بولی۔ ’’رامو بھائی! چُپ کیوں سادھ لی تم نے۔۔۔؟ ہمیں کچھ بتادوگے تو تمھاری وِدّیا تو نہ گھٹ جائے گی۔ بمبئی میں تو بہت برکھا ہوتی ہوگی۔ پانی سے بھری کالی اُودی بدلیاں گِھر آتی ہوگی۔۔۔ اور بجلی چمکتی ہوگی اِن بدلیوں میں رامُو۔۔۔! اور وہاں بمبئی میں دیوتا کو رتّی بھر کشٹ نہ ہوگا۔۔۔
رامو کے چہرے پر مُسکراہٹ پیدا ہونے کے فوراً بعد کسی قدر سنجیدگی میں بدل گئی۔ وہ بولا۔ ’’ہاں، ہلدی! اَن دیو اب بمبئی کے محلوں میں رہتا ہے۔۔۔ روپوں میں کھیلتا ہے۔۔۔ بمبئی میں۔۔‘‘
ہلدی کچھ نہ بولی۔ شاید وہ اُن کے متعلق سوچنے لگی جب ریل ادھر آنکلی تھی اور اَن دیو پہلی گاڑی سے بمبئی چلا گیا تھا۔
آنسو کی ایک بوند، جو ہلدی کی آنکھ میں اٹکی ہوئی تھی، اُس کے گال پر ٹپک پڑی۔ پرے آسمان پر بادل جمع ہورہے تھے۔ میں نے کہا ’’آج ضرور دھرتی پر پانی برسے گا۔‘‘
ہلدی خاموشی سے اپنے بچّے کو تھپکنے لگی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ کیا ہوا اگر دیوتا کو وہاں سُندریاں مِل جاتی ہیں۔ کبھی تو اُسے گھر کی یاد ستائے گی ہی اور پھر وہ آپ ہی آپ اِدھر چلا آئے گا۔
'ان دیوتا ' دیوندرستیار تھی کا ایک طنزیہ افسانہ ہے، جو ان دیوتا کے گرد گھومتا ہے۔ جب دنیا میں انسان آیا تو اسے بھوک نے ستایا ، بھوک مٹانے کیلئے انسان نے درختوں کے پتے، چھال، پھل کھائے۔ جانوروں کا شکار کر کے ان کا کچا گوشت کھایا۔ پھر انسانی زندگی آگے بڑھی ، اور اس نے کھیتی باڑی شروع کی ۔ افسانه اسی پس منظر سے شروع ہوتا ہے۔ مصنف نے گونڈوں کی زندگی سے بات شروع کی کیونکہ وہ ابتدائی دور کے انسانوں کی طرح جنگل میں رہتے اور ٹھیک جنگل کے درختوں کی طرح ان کی جڑیں بھی گہری ہوتی چلی گئیں۔ افسانے کا پہلا جملہ ہے' تب ان دیوتا برہما کے پاس رہتا تھا۔' ایک دن برہما نے کہا " او بھلے دیوتا! - دھرتی پر کیوں نہیں چلا جاتا۔ اور برما کے کہنے پر ان دیوتا دھرتی پر آگیا، وہ بہت بڑا تھا۔ پھر برہمانے سندیں بھیجا کہ تم چھوٹے ہوجاؤ۔ یہاں تک کہ وہ آدمی کی کمر تک رہ گیا تو آدمی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ کیونکہ اس کے جسم سے بالیں پھوٹ رہی تھیں ۔ معلوم ہوتا تھا کہ سونے کا پیڑ کھڑا ہے۔ آدمی نے اسے جھنجھوڑا، اور بالیں دھرتی پر گریں۔ یہ منظر بتاتا ہے کہ آدمی نے کھیتی باڑی شروع کی اور اناج کی فصل اگنے لگی۔ اب اچھی فصلیں اگ رہی ہیں ۔ مگر اسی کے ساتھ کال (قحط) بھی پڑنے لگا۔ افسانے کا مرکزی کردار جو اس بار کال پڑنے سے سخت ناراض ہے کیونکہ اس سے پہلے کبھی ایسا کال نہیں پڑا۔ اس کی بیوی ہلدی کی گود میں تین ماہ کا بچہ ہے۔ ہلدی ہر سال ان دیوتا کی منت مانتی۔ چنتوغصہ میں ہلدی سے کہتا ہے ، میرا دل تو تیرے بھگوان کو بھی نہ مانے۔ کہاں ہیں اس کے میگھ راج اور کہاں سورہا ہے . وہ خود ۔ ایک بوند بھی تو نہیں برسی۔ بستی کے ایک دوسرے گونڈ بیساکھو کا بھائی رامو بمبئی کے کسی مل میں کام کرتا تھا اور ہر ماہ اپنے باپ کو پچیس روپے منی آرڈر سے بھیجا کرتا تھا۔ کال میں چثو کی بدحالی کو دیکھ کر بیسا کھونے اسے سات آنے دیے۔ ہلدی کو شک ہوا کہ چثو مانگ کر لایا ہے مگر چثو نے اسے بتایا کہ بیسا کھونے خوردیے ہیں۔ ہلدی سو چنے لگی کہ اس قحط کے زمانے میں چار روز دال بھاگ کا خرچ چل جائے گا ۔ گاؤں کی انتہائی خراب حالت دیکھ کر قحط سبھا نے دهان بانٹنے کافیصلہ کیا۔ گاؤں میں پھڈ کے صاحب اورمنشی جی دهان بانٹے آئے ۔ چثو گاؤں کی پنچایت کا دایاں بازو تھا، وہ سب کودهان با نٹے لگا۔ سب لوگ ان دیوتا کی جے جے کار کرنے لگے۔ ہلدی نے سوچا کہ یہ دھان شاید ان دیوتا نے بھیجا ہے اسے دکھیارے گونڈوں کا خیال تو ضرور ہے۔ مگر جب اس نے پھڈ کے صاحب اور منشی جی کو حلوہ اڑاتے دیکھا تو وہ کسی گہری سوچ میں پڑ گئی۔ چثو کہہ رہا تھا وہ اب ہمارے کھیتوں میں کیوں آئے گا۔ وہ دھنوانوں کی حلوہ پوری کھانے لگا ہے۔ نردھن گونڈوں کی اب اسے کیا پروا ہے۔ پھر ہوا یہ کہ رامو بمبئی سے لوٹ آیا۔ ہلدی بولی ، رامو بھائی ! بمبئی میں تو دیوتا کو تم نے ضرور دیکھا ہوگا۔ رامو خاموش رہا۔ اس کے بعد مصنف کا تبصرہ ہے کہ رامو نے بمبئی میں مزدور سبھا کی تقریر یں سنی ہوں گی، اور وہ صاف صاف کہہ دے گا کہ ان آدمی آپ اپچاتا ہے۔ اپنے لہو سے، اپنے پسینے سے، اگر آدمی آدمی کالہو چوسنا چھوڑ دے تو آج ہی سنسار کی کایا پلٹ جائے ۔ کال تو پہلے سے پڑتے آئے ہیں، بڑے بڑے بھیا نک کال۔ مگر اب سرمایہ دار روز کسانوں اور مزدوروں کا لہو چوستے ہیں۔ اور غریبوں کیلئے اب سداہی کال پڑتا ہے۔ |
سوالوں کے جواب لکھیے:
1. برہما نے اَنّ دیوتا کو کیا سندیس(پیغام) بھیجا؟
جواب: اَن دیوتا جب دھرتی پر پہنچا تو اس کا قد بہت ہی اونچا تھا۔ اتنا اونچا کہ جب بارہ آدمی ایک دوسرے کے کندھوں پر کھڑے ہوتے تب جاکر وہ اُس کے سر کو چُھو سکتےتھے۔ یعنی وہ اتنا اونچا تھا کہ وہ لوگوں کی پہنچ سے دور تھا۔ تب ایک دن برہما نے اُسے پیغام بھیجا کہ یہ تو بہت مشکل ہےتمہیں دوسروں کے لیے چھوٹا ہونا ہوگا۔ ان کی مشکلیں سننی ہوں گی اور انہیں حل کرنا ہوگا۔دیوتا نے برہما کی بات مانی اور اب اس کا قد آدھا رہ گیا تھا لیکن برہما کی تسلّی نہ ہوئی۔ آدمی کی مشکل اب بھی پوری طرح حل نہیں ہوئی تھی۔ اُس نے پھر سندیس(پیغام) بھیجا اور دیوتا ایک چوتھائی رہ گیا۔ اب صرف تین آدمی ایک دوسرے کے کندھوں پر کھڑے ہوکر اس کے سر کو چُھوسکتے تھے۔ آدمی اس سے بھی خوش نہیں تھا اس نے ایک بار پھر اَنّ دیوتا کے اونچے ہونے کی شکایت کی۔اَن دیو اور بھی چھوٹا ہوگیا۔ اب وہ آدمی کے سینے تک آگیا تھا۔ پھر جب وہ کمر تک رہ گیا تو آدمی بہت خوش ہوا۔اُس کے جسم سے بالیں پھوٹ رہی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ سونے کا پیڑ کھڑا ہے۔ اب اَن دیوتا آدمی کی پہنچ میں آچکا تھا۔
2. چِنتو اَنّ دیوتا سے ناراض کیوں رہتا تھا؟
جواب: چنتو اَنّ دیوتا سے اس لیے ناراض رہتا تھا کہ اُسے لگتا تھا کہ اُس کی ساری مصیبتیں اَنّ دیوتا کی وجہ سے ہیں۔ وہ ایک غریب گونڈ تھا۔ اور اُس کی زندگی بڑی مشکلوں میں گزرتی تھی۔ اس غریبی کے عالم میں ایک بار قحط پڑا اور اس کی حالت اور بھی خراب ہو گئی ۔یہاں تک کہ اُس کی بھوکے مرنے کی حالت ہو گئی۔ اُس کے آس پاس کے لوگ قحط سے اتنا متاثر نہیں تھے لیکن وہ ایک بدحال زندگی جی رہا تھا۔ اُسی زمانے میں اس کی بیوی کوبچّہ پیدا ہوا۔اور اس کی مشکلیں اور بھی بڑھ گئیں۔ آس پاس خوشحالی تھی اور اُس کے گھر میں فاقہ۔ اُسے لگا کہ اب اُس کا دیوتا صرف امیروں کا ہوگیا ہے۔ اُسے صرف اُن کی خوشیوں کا خیال ہے۔ اس بات سے اُس کی ناراضگی اور بھی بڑھ گئی اور وہ غصّے میں دیوتا کو برا بھلا کہنے پر اُتر آیا۔ اور اب وہ آنّ دیوتا سے ہر وقت ناراض رہنے لگا تھا۔
3. مصنف نے کہانی کے آخری حصّے میں کال کا ذمّہ دار کسے ٹھہرایا اور کیوں؟
جواب: اس کہانی کے مصنف نے کہانی کے آخری حصّے میں قحط کا ذمّہ دار آدمی کو ٹھرایا ہے۔ یہاں قحط بدحالی اور غریبی کی علامت ہے۔ مصنف کا ماننا ہے کہ انسان ہی انسان کی بدحالی کا ذمّہ دار ہے۔ ہر انسان دوسرے انسان کا خون چوس رہاہے۔ سرمایہ داری اور چور بازاری نے عام انسانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ آدمی آدمی کا لہو چوس رہا ہے۔ سرمایہ داروں نے سارا اناج اپنی کوٹھیوں میں بھر رکھا ہے اور دوسری جانب غریب آدمی بھوک سے مر رہا ہے۔ امیر و غریب کی اس تفریق نے لوگوں کا جیناحرام کر رکھا ہے۔ چنتو کو لگتا ہے کہ اس کے لیے اَنّ داتا ذمّہ دار ہے لیکن مصنف کا ماننا ہے کہ ساری سماجی نابرابری کا ذمّہ دار انسان خود ہے۔ اگر وہ ایک دوسرے کا خیال رکھے تو دنیا میں خوش حالی آ سکتی ہے۔
0 comments:
Post a Comment