انوکھا درخت
مقبول احمد دہلوی
ایک بادشاہ کی دو رانیاں تھیں۔ بڑی رانی کے چار بیٹے تھے اور چھوٹی رانی کا صرف ایک لڑکا تھا۔ بادشاہ اپنے پانچوں شہزادوں کو ایک نظر سے دیکھتا تھا لیکن سب سے چھوٹا شہزادہ اپنے چاروں بڑے بھائیوں سے زیادہ عقلمند، ذہین اور نیک تھا۔ اس لیے بادشاہ اسے زیادہ چاہتا اور پسند کرتا تھا۔
ایک رات کا ذکر ہے، بادشاہ نے خواب دیکھا۔ خواب اتنا دلچسپ اور عجیب و غریب تھا کہ صبح ہونے کے بعد بھی بادشاہ اس خواب کے بارے میں سوچتا رہا۔ آخر میں بادشاہ نے اپنے پانچوں شہزادوں کوبلا کر کہا۔
”پیارے بیٹو! آج میں نے ایک عجیب و غریب اور انوکھا درخت دیکھا ہے جس کا جڑوں سے تنے کا حصہ چاندی کا بنا ہوا ہے اس کی شاخیں سونے کی ہیں اور اس میں ہیرے کی پتیاں لگی ہیں اس میں موتیوں کے گچھے پھلوں کی طرح لٹک رہے ہیں۔اس درخت پر میں نے ایک طوطی کو بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔جب تک وہ طوطی خوش رہی تو درخت بھی سرسبز اور ہرا بھرا رہا۔لیکن جیسے ہی طوطی اُداس اور مغموم ہوئی سارا درخت مرجھا گیا جیسے بہار ایک دم خزاں میں بدل گئی ہو۔ پیارے بچو! میں اس درخت سے اتنا متاثر ہوا ہوں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ یہ انوکھا درخت میرے محل میں ہونا چاہیے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کے تم پانچوں شہزادوں میں سے جو شہزادہ اس عجیب و غریب درخت کو لا کر پیش کرے گا وہی میرے بعد تخت و تاج کاحقدار ہوگا اس کام کے لیے میں تم سب کو دو سال کی مہلات دیتا ہوں۔اور ہاں سفر خرچ کے لیے جس قدر دولت کی ضرورت ہو تم شاہی خزانے سے لے سکتے ہو۔“
بڑی رانی کے چاروں بیٹوں نے بادشاہ کے خزانے سے کافی دولت لی اور اس انوکھے درخت کی تلاش میں چل دیئے۔ان کے ساتھ ہی سب سے چھوٹا شہزادہ بھی تھوڑی سے اشرفیاں لے کر محل سے چل پڑا۔
چلتے چلتے جب پانچوں شہزادے ملک کی حد کو پار کرکے ایک جنگل میں پہونچے تو چاروں بڑے شہزادوں نے سب سے چھوٹے شہزادے سے اشرفیاں چھین کر اسے ایک اندھے کنویں میں ڈھکیل دیا۔ اس کے بعد چاروں بھائی آگے چل دیئے۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد چاروں شہزادے ایک بڑے شہر میں پہونچے اور سب سے ہوشیار سنارکے پاس جاکر چاروں شہزادوں نے بادشاہ کے بتائے ہوئے درخت کے مطابق ایک درخت تیار کرنے کا آرڈر دیا ۔سنار نے کئی لاکھ روپے میں انوکھا درخت بنانے کا ٹھیکہ لے لیا۔چاروں شہزادے اسی شہر میں رہنے لگے۔
ادھر چھوٹا شہزادہ کنویں میں پڑا اپنی قسمت پر آنسو بہا رہا تھا۔ اتفاق سے کچھ چرواہے پانی کی تلاش میں کنویں پر پہنچے۔ کنویں کے اندر ایک اجنبی نوجوان کو دیکھ کر انھوں نے رسّی ڈال کر شہزادے کو باہر نکالا۔ چھوٹے شہزادے نے کہا۔
”آپ لوگوں نے کنویں سے باہر نکال کر مجھے نئی زندگی دی ہے۔ خدا آپ سب کا بھلا کرے“اس کے بعد شہزادے نے سارا واقعہ چرواہوں کو سنایا۔ شہزادہ بھوکا تھا۔چرواہوں نے ایک بکری کہ دودھ نکال کر شہزادے کو دیا۔ شہزادہ دودھ پی کر چرواہوں کا شکریہ ادا کرکے انوکھے درخت کی تلاش میں آگے بڑھا۔ ندی نالے پار کرنے اور کئی پہاڑیاں عبور کرنے کے بعد چھوٹا شہزادہ ایک ایسے بیابان جنگل میں پہونچا جہاں ایک فقیر کے علاوہ اسے کوئی جاندار نظر نہ آیا۔فقیر ایک درخت کے نیچے پڑا سو رہا تھا وہ چھ مہینے سوتا اور چھ مہینے جاگ کر عبادت و ریاضت کرتا تھا۔ چھوٹا شہزادے فقیروں اور درویشوں کی بڑی عزت کرتا تھا۔ سوئے ہوئے فقیر کے ارد گرد لمبی گھاس اگی ہوئی تھی۔ شہزادے نے گھاس کو کا ٹ کر جگہ کو صاف کیا اور فقیر کے پاؤں دبانے بیٹھ گیا۔فقیر کے جاگنے میں صرف دو چار ہی دن رہتے تھے۔شہزادہ فقیر کی خدمت کرتا رہا۔
جب فقیر بابا کی آنکھ کھلی تو خوش ہو کر شہزادے سے بولا۔”بیٹا تم نہ جانے کتنے عرصے سے میری خدمت کر رہے ہو۔ میں تمہاری خدمت سے بہت خوش ہوں۔میری خواہش ہے کہ تم مجھ سے کچھ طلب کرو۔“
شہزادے نے کہا۔ ”بابا میں آپ سے کیا چیز طالب کروں۔ اگر آپ وہ چیز دینے کا وعدہ کریں تو میں کچھ مانگوں بھی؟“فقیر نے کہا۔”تم جو کچھ مانگو گے میں دوں گا۔“
شہزادے نے فقیر سے کہا۔”بابا! مجھے اپنے ابّا جان کے لئے اس انوکھے درخت کی ضرورت ہے جس کی جڑے اور تنہ چاندی کا،شاخیں سونے کی، پتیاں ہیرے کی اور پھولوں کی جگہ اس پر موتیوں کے گچھے لٹکے ہوں۔ درخت پر ایک طوطی بیٹھی ہو جس کے خوش رہنے سے درخت ہرا بھرا رہتا ہے اور اُداس ہونے سے مرجھا جاتا ہے۔“
فقیر نے کہا۔” بیٹا! میں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ تم ایک ایسی چیز مانگو گے جو میری طاقت سے باہر ہوگی۔ بہرحال میں تمہیں مایوس نہیں کروں گا تم میرے استاد کے پاس چلے جاؤ۔یہاں سے تھوڑی ہی دور اُن کی جھونپڑی ہے۔وہ سال بھر سوتے ہیں اور سال بھر جاگتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ تمہاری یہ خواہش پوری کریں گے۔“
فقیر کو سلام کرکے چھوٹا شہزادہ چلتے چلتے دوسرے فقیر کے پاس پہنچا اس فقیر کے آس پاس بھی بہت لمبی لمبی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔شہزادے نے اُن سب جھاڑیوں کو کاٹ کر جگہ صاف ستھری کی اور فقیر کا سر دبانے بیٹھ گیا۔فقیر بابا کو سوتے ہوئے سال ہو چکا تھا۔جاگنے میں دو تین ہفتے رہتے تھے جب اس کی آنکھ کھلی تو شہزادے کو سر دباتے دیکھ کر فقیر بابا بہت خوش ہوئے۔بولے۔” کہو بیٹا کیسے آنا ہوا، کسی چیز کی ضرورت ہو تو مانگ لو۔“
شہزادے نے ساری کہانی سنانے کے بعد فقیر بابا سے اس انوکھے درخت کی فرمائش کی۔
فقیر بابا نے کہا۔” بیٹا تم نے بہت بڑی چیز مانگ لی۔خیر میں تمہاری اس خواہش کو پورا کرنے میں تمہار ی مدد کروں گا۔یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر میرے استاد رہتے ہیں تم ان کے پاس جاؤ امید ہے وہ تمہاری خواہش پوری کریں گے۔ وہ دو سال سوتے ہیں اور دو سال جاگتے ہیں۔ ان کے جاگنے میں صرف ایک مہینہ رہ گیا ہے۔“
فقیربابا کو سلام کرکے شہزادہ آگے بڑھا۔تھوڑے ہی فاصلے پر شہزادے نے تیسرے فقیر کو سوتے دیکھا۔یہ فقیر پہلے دونوں فقیروں سے بہت بوڑھا اور ضعیف تھا۔ اس فقیر کے آس پاس تو بہت بڑی جھاڑیاں اُگ آئی تھیں۔
شہزادے نے تمام جھاڑیوں کو کاٹ کر جگہ صاف کی اور بزرگ کے پاؤں دبانے لگا۔ایک ماہ بعد جب بزرگ سو کر اٹھے تو شہزادے کو پاؤں دباتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔بولے۔ ”بیٹا! میں تمہاری خدمت سے بہت خوش ہو جو مانگو گے سو پاؤگے۔“
شہزادے نے اپنی ساری بپتا سناتے ہوئے بزرگ سے کہا۔”نیک بزرگ! ہم پانچ بھائی ہیں۔ پانچوں بھائی ابا جان کے لیے انوکھے درخت کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں اس درخت کی جڑیں اور تنہ چاندی کا بنا ہوا ہے۔ شاخیں سونے کی ہیں، پتیاں ہیرے کی ہیں اور پھولوں کی جگہ اس میں سچے موتیوں کے گچھے انگور کی طرح لٹکے دکھائی دیتے ہیں اس عجیب و غریب درخت پر ایک طوطی کہیں سے اڑ کر آتی ہے۔ شاخ پر بیٹھ کر طوطی جب تک ہستی رہتی ہے تو درخت سر سبز رہتا ہے لیکن جب وہ اُداس ہو جاتی ہے تو درخت پر بھی خیزا چھا جاتی ہے اس درخت کو اگر آپ مجھے دے سکیں تو میں آپ کا بہت ممنوں ہوں گا۔“ بزرگ نے کہا۔” بیٹا! تم نے ایک ایسی چیز مانگی ہے جسے حاصل کرنا بہت دُشوار اور کٹھن ہے۔ بہرحال تم اُداس نہ ہو، میں تمہاری مدد کروں گا۔ “اتنا کہہ کر بزرگ نے اپنی داڑھی کا ایک بال شہزادے کو دیا اور کہا۔”جنگل پار کرنے کے بعد تمہیں بڑکا ایک پرانا درخت ملےگا۔ اس کی کھو میں ایک غار ہے جس میں ایک کالا ناگ رہتا ہے۔ اس کے سر پر ایک چراغ جل رہا ہے ۔میرا یہ بال دکھا کر تم اس ناگ سے چراغ لے لینا۔ اس چراغ کو لے کر تم ندی کی تہہ میں چلے جانا وہاں تمہیں ایک عالیشان محل نظر آئےگا۔ دروازہ کھول کر محل کے اندر چلے جانا۔ وہاں تمہیں ایک انوکھا درخت مل جائے گا۔“ بزرگ کو سلام کرکے چھوٹا شہزادہ بڑ کے درخت میں کالے ناگ کے پاس پہونچا۔بال دکھا کر چراغ حاصل کیا اور اُسے ہاتھ پر رکھ کر ندی میں چلا گیا۔ جیسے جیسے وہ آگے بڑھتا، چراغ کی وجہ سے ندی میں راستہ بنتا جاتا تھا۔ندی کی تہہ میں پہونچ کر شہزادے کو ایک خوبصورت محل دکھائی دیا۔ شہزادہ محل کا دروازہ کھول کر اندر جانے لگا تو ایک پہریدار نے اسے روک کر پوچھا۔”تم کون ہو؟ اس محل میں پریوں کی اجازت کے بغیر کوئی بھی داخل نہیں ہو سکتا۔“
شہزادے نے کہا۔”میں ملک زمستان سے آیا ہوں۔فلاں بزرگ کی ہدایت کے مطابق مجھے اس محل میں ضرور جانا ہے۔ تم جاکر محل میں رہنے والی پریوں کو خبر کرو۔“
پہریدار نے محل کے اندر جا کر پریوں کو خبر کیا کہ ”کوئی شہزادہ آیا ہے اور محل کے اندر آنا چاہتا ہے۔“
پری نے کہا۔”بلا لاؤ۔“
پہریدار واپس پھاٹک پر گیا اور بڑی عزت کے ساتھ شہزادے کو محل کے اندر لےگیا۔
شہزادے نے محل کے اندر پہونچ کر بہت سے کمرے دیکھے۔ پہلے کمرے پر لکھا تھا۔ ”چاندی کی پری۔“ شہزادی نے دیکھا، اس کمرے کی ہر چیز چاندی کی بنی ہوئی تھی۔
شہزادہ حیران اور متعجب سا چاندی کی پری کے کمرے میں چلا گیا۔ چاندی کی پری چاندی کی مسہری پر لیٹی تھی۔ شہزادے کو دیکھ کر وہ فوراً اٹھی اور بولی۔”وہ!آپ ہیں! آپ کو اپنا شوہر بنا نے کے لئے میں کب سے انتظار کر رہی ہوں۔ شکر ہے کہ آج آپ آگئے۔“
شہزادی نے کہا۔”میں فلاں نیک بزرگ کی مدد سے تم تک پہنچا ہوں۔ آپ کون ہیں؟“چاندی کی پری نے کہا۔” میں انوکھے درخت جس کی تمہیں تلاش ہے، کا چاندی تنا ہوں۔“ شہزادے نے کہا۔” یہ بات ہے تو میں تم سے شادی کروں گا۔“ چاندی کی پری کے پاس تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد شہزادے نے کہا۔”میرے پاس وقت کم ہے۔ مجھے اپنے باپ کے پاس جلدی واپس جانا ہے۔ تم میرے ساتھ چلنے کی تیاری کرو۔ محل میں گھوم کر ابھی واپس آتا ہوں۔“ اتنا کہہ کر شہزادہ چاندی کی پری کے کمرے سے باہر نکلا۔ تھوڑا آگے چلا تو ایک کمرے کے دروازے پر لکھا تھا۔ ”سونے کی پری۔“ اس کمرے کی سبھی چیز سونے کی تھیں شہزادہ اندر داخل ہوا تو سونے کی پری نے آگے بڑھ کر شہزادے کا استقبال کیا اور اسے اپنے ساتھ رہنے کو کہا۔ شہزادے کے پوچھنے پر سونے کی پری نے کہا۔ ”شہزادے جب چاندی کی پری درخت کا تنا بن کر کھڑی ہو جاتی ہے تو میں اس کے ساتھ سونے کی شاخیں بن کر لگ جاتی ہوں۔“شہزادہ کو اپنی خواہش پوری ہوتی نظرآئی اس نے سونے کی پری کو بھی اپنی بیوی بنانے پر رضامند کر لیا۔ تھوڑی دیر سونے کی پری کے پاس رہنے کے بعد شہزادے نے محل کے دوسرے حصے کو دیکھنے کے خواہش ظاہر کی سونے کی پری نے اُسے تیسرے کمرے میں بھیج دیا۔ تیسرے کمرے کے دروازے پر لکھا تھا۔”ہیرے کی پری۔“ ہیرے کی پری کے کمرے کی ساری چیزیں ہیرے کی بنی ہوئی تھیں۔ پہلی دو پریوں کی طرح ہیرے کی پری نے بھی شہزادے کا استقبال کیا اور کہا۔ ”شہزادے! میرے اندر یہ خوبی ہے کہ جب چاندی کی پری انوکھے درخت کا تنا اور سونے کی پری اس کی شاخیں بن جاتی ہیں۔ تو میں ہیرے کی پتیاں بن کر شاخیں میں لٹک جاتی ہوں۔“ چھوٹا شہزادہ ہیرے کی پری کے گن سن کر اور بھی خوش ہوا اس کے ساتھ بھی شادی کرکے اسے تیسری بیوی بنانے پر آمادہ ہو گیا کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد شہزادے نے ہیرے کی پری سے کہا۔ ”میرے پاس وقت بہت تھوڑا ہے اس لئے جلد از جلد محل کا باقی حصہ بھی دیکھ لینا چاہتا ہوں۔“ ہیرے کی پری نے شہزادے کو موتی کی پری کے کمرے میں بھیج دیا موتی کی پری کے کمرے میں تمام چیزیں موتی کی بنی ہوئی تھیں۔ شہزادے کو دیکھ کر موتی کی پری کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔شہزادے سے بولی۔ ”اچھے شہزادی میرے اندر یہ صفت ہے کہ میں انوکھے درخت پر موتیوں کے گچھے بن کر لٹک جاتی ہوں۔“
پہلی تین پریوں کی طرح شہزادہ موتی کی پری سے بھی شادی پر راضی ہو گیا۔ موتی کی پری کے کمرے سے نکل کر شہزادہ محل کے پانچویں کمرے کی طرف بڑھا۔ دروازے پر ”طوطے کی پری“ لکھا ہوا تھا دیکھ کر وہ ایک لمحہ کے لیے رکا۔ پھر ہمت کرکے کمرے کے اندر چلا گیا۔ کمرے کی ساری چیزیں طوطے کے پروں کی مانند سبز تھیں۔ سبز پری ایک مسہری پر لیٹی ہوئی تھی۔ شہزادے کو دیکھتے ہی وہ تیزی سے اٹھی اور بڑے تپاک سے بولی۔”اوہ شہزادے تم آگئے۔ میں تمہارا انتظار کر رہی تھی“ شہزادے کے پوچھنے پر سبز پری نے بتایا۔”شہزادے میرے اندر یہ گن ہے کے جب چاندی،سونے،ہیرے اور موتی کی پریاں ایک ایک کرکے انوکھے درخت کا روپ دھار لیتی ہیں تو میں طوطی بن کر اس درخت پر جا بیٹھتی ہوں جب تک میں درخت پر خوش بیٹھی رہتی ہو تب تک انوکھا درخت سر سبز رہتا ہے لیکن جب میں اُداس ہو جاتی ہو تو درخت بھی مرجھا جاتا ہے۔“ شہزادہ سبز یعنی طوطے کی پری کے گن سن کر بہت خوش ہوا۔سبز پری سے بھی شادی کی ٹھان لی۔ تھوڑی دیر وہاں رکا جب جانے لگا تو طوطے کی پری نے کہا۔”اب آپ میرے سرتاج ہیں۔ جہاں جائیں مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیں۔“
سبز پری کو ساتھ لے کر شہزادہ موتی کی پری کے پاس آیا موتی کی پری سے جب اس نے اپنے واپس جانے کی بات کہی تو موتی کی پری نے کہا۔”آپ میرے شوہر ہیں۔اس لئے میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی۔“ موتی کی پری کو بھی ساتھ لے کر شہزادہ ہیرے کی پری کے پاس پہنچا وہ بھی پہلی دونوں پریوں کی طرح شہزادے کے ساتھ ہولی۔ سونے اور چاندی کی پریاں بھی بلا کسی عذر کے شہزادے کے ساتھ جانے کے لئے راضی ہو گئیں۔ شہزادے نے پانچوں پریوں کو ایک جگہ کھڑی کرکے کہا۔”اچھی پریوں! میں اپنے باپ کے لئے انوکھا درخت تلاش کرتا ہوا تم تک پہونچا ہوں اور تم سب نے مجھے اپنا سرتاج بنا لیا ہے تم سب کو اپنی بیویاں بنا کر میں خود کو دنیا کا خوش نصیب شہزادہ سمجھتا ہوں۔آج میں جتنا بھی فخر کرو کم ہے۔ اب تم سب میرے ساتھ چل تو رہی ہو لیکن جانے سے پہلے میں چاہتا ہوں تم سب میرے سامنے ایک بار اپنی ہنر مندی کا مظاہرہ کرکے مجھے دکھاؤ۔“ شہزادے کے کہنے کی دیر تھی کہ اسی وقت چاندی کی پری انوکھے درخت کا تنا بن کر کھڑی ہو گئی۔ دوسرے لمحے میں سونے کی پری اس کی شاخیں بن گئی۔ تیسرے لمحے میں ہیرے کی پری سونے کی شاخوں میں پتیاں بن کر چپک گئیں۔ اس کے بعد موتی کی پری موتیوں کے گچھے بن کر ڈالیوں میں لٹک گئی۔ جب انوکھا درخت پوری طرح تیار ہو گیا تو آخر میں سبز پری طوطی بن کر اُڑی اور درخت پر جا بیٹھی۔ پانچوں پریوں کے گن دیکھ کر شہزادہ بہت ہی خوش ہوا اور انھیں ساتھ لے کر بڑے بزرگ کے پاس پہونچا۔ بزرگ نے شہزادے کو پانچوں پریوں کے ساتھ دیکھا تو بڑے خوش ہوئے۔ شہزادے کی کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے انھوں نے کہا۔ ”بیٹا! بڑکے درخت کے ناگ کے سر سے تمہیں جو چراغ ملا تھا اسے جاکر وہیں رکھ آؤ چراغ کا کام بس اتنا ہی تھا۔ اس چراغ کی بدولت تم پریوں تک آسانی سے پہونچے ہو اور ان پریوں نے تمہیں اپنا شوہر بھی مان لیا ہے۔ اب تم خوشی سے باپ کے پاس جاکر ان کی آرزو پوری کر سکتے ہو۔ لیکن جانے سے پیشتر ایک بار انوکھا درخت بنا کر مجھےدکھاتے جاؤ۔“
چھوٹے شہزادے نے اسی وقت پانچوں پریوں کو انوکھے درخت کا روپ دھار نے کے لئے کہا۔ دوسرے ہی لمحہ پریوں نے مل کر انوکھا درخت کھڑا کردیا۔ نیک بزرگ قدرت کا عجوبہ دیکھ کر بہت ہی خوش ہوئے اور شہزادے کو دعا دے کر بولے۔”بیٹا تمہارے والد تمہارے اس کارنامے سے بہت خوش ہوں گے لیکن راستے میں تمہارے دشمن تم سے اس درخت کو چھیننا چاہیں گے۔ یہ لاٹھی اور رسی تمہیں دیتا ہوں اسے اپنے پاس رکھو۔ ان چیزوں کی مدد سے تم اپنا درخت واپس لے سکوگے۔“
بزرگ کو اسلام کرکے چھوٹا شہزادہ پریوں اور رسی و لاٹھی کو کے کر دوسرے فقیر بابا کے پاس پہنچا۔ انھوں نے بھی شہزادے کو اس کامیابی پر مبارکباد دی اور کہا۔ ”بیٹا! قدرت کا یہ عجوبہ ذرا مجھے بھی دکھاؤ۔“
پانچوں پریاں ایک بار پھر انوکھا درخت بن کر کھڑی ہو گئیں۔ فقیر بابا نے خوش ہو کر شہزادے کو لکڑی کا پیالہ دیتے ہوئے کہا۔ ”لو بیٹا اسے اپنے پاس رکھو۔ اس پیالے میں یہ خوبی ہے کہ جب بھی تمہیں کھانے کی ضرورت ہوگی پکّا پکایا کھانا تمھیں مل جائے گا۔“
شہزادہ اور پانچوں پریاں فقیر کو سلام کرکے آگے بڑھیں تھوڑی دیر میں پہلے فقیر کی جھونپڑی آگئی۔ انھوں نے بھی شہزادے کی کامیابی پر مبارکباد دی اور پہلے دونوں فقیروں کی طرح انوکھے درخت کا مظاہرہ دیکھ کر کہا” بیٹا میرے پاس تو کچھ بھی نہیں صرف لکڑی کا یہ گلاس ہے اسے تم لے جاؤ۔ضرورت کے وقت دودھ، شربت اور پانی ان سے حاصل کرسکتے ہو۔“شہزادہ فقیر کو سلام کر کے اپنی پانچوں پریوں اور رسی، لاٹھی، کٹورا اور گلاس کے ساتھ آ گے بڑھا ۔ دو برس پورے ہونے میں کچھ ہی دن رہ گئے تھے چھوٹا شہزادہ پریوں کو ساتھ لے کر واپس اسی کنویں پر پہنچا جس میں اس کے چاروں بھائیوں نے ڈھکیل دیا تھا کچھ دیر سستانے اور آرام کر نے کی غرض سے شہزادہ اسی کنویں کے پاس ہی بیٹھ گیا۔اسے بیٹھے دیر نہیں ہوئ تھی کہ ایک طرف سے ان کے چاروں بھائی گھوڑوں پر سوار وہاں آ پہنچے چھوٹے بھائی کو زندہ سلامت دیکھ کر انہوں نے پوچھا ”کہو بھائی کیسے ہو؟ اباجان نے جس کام کے لیے کہا تھا وہ کیا یا جب سے یہی بیٹھے مکھیاں مار رہے ہو۔“
چھوٹا شہزادہ بہت بھولا اور سیدھا تھا ۔اس نے چاروں بھائیوں کو اپنی کامیابی کی ساری داستان کہہ سنائ۔
چاروں بھائی چھوٹے شہزادےکےکامیاب لوٹنے پر مارے حسد کے جل ہی تو گئے۔مو قعہ پا کر چاروں بڑے بھائیوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو ایک بار پھر کنویں میں ڈال دیا اور پانچوں پریوں کو لے کر محل کی طرف چل دیئے۔
چھوٹا شہزادہ کنویں میں گر کر بیہوش ہوگیا جب ہوش آ یا تو بہت رویا اچانک اسے بزرگ کی دی ہوئی لاٹھی اور رسی کا خیال آ یا۔اس نے فوراً دونوں چیزیں تھیلے میں سے نکال کر پریوں کو واپس لانے کے لیے بھیجا۔آن کی آ ن میں رسی نے جاکر چاروں شہزادوں کو جکڑ لیااور لاٹھی نے انھیں پیٹنا شروع کیا۔چاروں بھائی پریوں کو جنگل میں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
گھر پہونچتےہی چاروں شہزادوں نے کہا۔” ابا جان ! ہم ایک بہت ہوشیار اور کاریگرسنار سے کئی لاکھ روپے میں آ پ کا مطلوبہ درخت تیار کرا لائے ہیں۔ آ ئیے ہم آ پ کو اپنا لایا ہوا انوکھادرخت دکھائیں۔“
لیکن بادشاہ نے کہا ”نہیں ابھی دو برس پورے ہونے میں ایک دن باقی ہے کل تک چھوٹے شہزادے کا انتظار کرو۔“انوکھے درخت کی نمائش اگلے روز پر ملتوی کر دی گئی۔
ادھر چھوٹا شہزادہ رسی اور لاٹھی کو پریوں کی مددکےلئےبھیجنےکے بعد خود کنویں میں پڑا تھا اتفاق سے پھر وہی چرواہے اس کنویں پر آنکلے جنھوں نے اسےپچھلی بار کنویں سے نکالا تھا۔چرواہوں نے چھوٹے شہزادے کو کنویں سے نکال کر پوچھا ۔ ”بھائی ایک بار پہلے بھی تم اس کنویں میں گرے تھے تب تم نے کہا تھا کہ بھائیوں نے گرا دیا۔ بھلا اس بار تمہیں کس نے گرا یا ؟“
چھوٹے شہزادے نے کہا ”بھائیو! اس بار بھی میرے بھائیوں ہی نے مجھے اس کنویں میں ڈھکیلا ہے۔ میں آ پ سب کا بہت ہی شکر گزار ہوں۔ اس وقت میں آپ کی کوئ خدمت نہیں کر سکتا لیکن آ پ کو پیٹ بھر کر لذیذ کھا نے ضرور کھلا سکتا ہوں۔“
اتنا کہہ کر شہزادے نے تھیلے میں سےفقیر کا پیالہ اور گلاس نکالا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دسترخوان پر مزےدار کھانے سج گئے۔ سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا بعد میں دودھ اور میٹھے پانی کے گلاس پی کر سب اپنے اپنے گھر کو چلے گئے۔ چھوٹا شہزادہ بھی کٹورا اور گلاس لے کر چل دیا۔ راستہ میں پانچوں پریاں رسی اور لاٹھی سمیت مل گئیں۔ شہزادہ انھیں لے کر جلدی سے محل میں پہنچا کیونکہ آ ج دوسرے سال کا آ خری دن تھا۔
باپ کو سلام کر کے چھوٹے شہزادے نے ساری باتیں بادشاہ کو سنائیں۔ چاروں بڑے شہزادوں کے ظلم کی داستان سن کر بادشاہ کو بہت غصہ آ یا اور انہیں سخت سزا دینے کا فیصلہ کیا۔
دوسرے دن سب وزیر اور درباری محل میں جمع ہوئے۔ محل کو ایک دلہن کی طرح سجا یا گیا تھا۔
بادشاہ نے سب سے پہلے بڑے شہزادے کو اپنا لایا ہوا انوکھا درخت پیش کرنے کا حکم دیا۔
چاروں شہزادوں نے لاکھوں روپے کی لاگت سے تیار کیا ہوا انوکھا درخت بادشاہ کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ اس درخت کی جڑیں اور تنا چاندی کا تھا، ڈالیاں سونے کی تھیں اور پتیاں ہیرے کی اور پھل کی جگہ موتیوں کے گچھے لٹک رہے تھے۔
بادشاہ نے کہا ”لیکن اس درخت پر طوطی کہاں بیٹھی ہے جس کے خوش رہنے پر سارا درخت سر سبز رہتا ہے اور مغموم ہونے پر مرجھا جاتا ہے۔“
چاروں شہزادے چپ تھے بادشاہ نے کہا ”میں نے خواب میں انوکھے درخت کو آہستہ آہستہ بنتے اور سرسبز ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔اس لیے میں اس درخت کو اپنا خواب والا درخت ماننے کےلئے تیار نہیں۔ ہاں اب چھوٹا شہزادہ اپنا لایا ہوا درخت پیش کرے۔“
چھوٹے شہزادے نے باپ کا حکم پاتے ہی پانچوں پریوں کو انوکھا درخت بنانے کے لیے کہا۔ دوسرے ہی لمحہ چاندی کی پری نے چاندی کی جڑیں اور تنا تیار کر دیا۔ اس کے بعد سونے کی پری نے سونے کی شاخیں لگادیں۔بادشاہ اور سب درباری اس عجیب وغریب منظر کو دیکھ کر حیران ہورہے تھے کہ ہیرے کی پری نے سونے کی ڈالیوں میں ہیر کی پتیاں جڑد یں۔ آ خر میں موتی کی پری نے درخت میں پھلوں کی جگہ موتیوں کے گچھے لٹکادیے۔جب درخت مکمل ہوگیا تو سبز پری طوطی بن کر اڑی اور درخت کی ایک شاخ پر جا بیٹھی اس کے مسکرانے سے سارا درخت ھرا بھرا ہوگیا۔اس وقت چاروں شہزادوں نے شور مچا کر اس کھیل میں
رکا وٹ ڈالنے کی کوشش کی تو طوطی اداس ہو گئ۔ اس کے اداس ہوتے ہی درخت مرجھا گیاسب کو ایسا محسوس ہوا جیسے درخت پر اچانک خزاں آ گئ ہے یہ دیکھ کر دربار میں موجود سبھی لوگ چھوٹے شہزادے کے نعرے لگانے لگے۔ بادشاہ بھی چھوٹے شہزادے کے کارنامے سے بہت خوش تھا وعدے کے مطابق اس نے اعلان کیا” آ ج سے یہ تخت و تاج اپنے بہادرچھوٹے شہزادے کو سونپتا ہوں اور اس کے حق میں تخت سے دستبردار ہو تا ہوں۔ اب چھوٹا شہزادہ اس ملک پر راج کےگا۔ چاروں بڑے شہزادے اپنی شرارت کی وجہ سے آج دس دس سال کی سزا کا ٹیں گے اس کے بعد چھوٹا شہزادہ انھیں گزارے کے لایق الاونس دےگا۔“
لوگ یہ اعلان سن کر اچھل پڑے۔ لیکن چاروں بڑے شہزادے مغموم نظر آتے تھے کیونکہ انھوں نے راستے میں چھوٹے شہزادے سے دغا کی تھی۔ اسی وقت سپاہی ان چاروں کو پکڑ کر قید خانے میں لے گیے اور چھوٹا شہزادہ اپنی پانچوں پریوں سمیت تخت کی طرف بڑھ گیا۔
کہتے ہیں کہ ملک زمستان کا یہ بادشاہ وہاں مدتوں حکومت کرتا رہا اور جب مرا تو پانچوں پریاں انوکھی رسی،لاٹھی اور پیالے کے ساتھ وہاں سے غائب ہو گئیں۔ درباریوں نے بہت تلاش کیا تینوں فقیر بزرگوں کو بھی ڈھونڈا لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ ہاں ان سب کی یاد اب تک ان کے دل میں ہے۔
ختم شد
0 comments:
Post a Comment