آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday, 12 September 2020

Hazrat Jalaluddin Kabir ul Auliya Panipati RA

 حضرت شیخ جلال الدین کبیر الاولیا پانی پتی ؒ

از شیخ اللہ دیا چشتی

(زیر نظر مضمون سلسلہ چشتیہ کے ممتاز بزرگوں کے حالات پر مشتمل فارسی میں لکھی گئی قدیم کتاب ’’سیرالاقطاب“  کا ترجمہ ہے۔1646ء میں لکھی گئی اس  کتاب کا پہلا اردو ترجمہ 1888ء میں  شائع ہوا تھا۔)

(قسط 4)

نقل ہے کہ حضرت حجت الاولیا حضرت شیخ محمد عبد الحق قدس سرہ ساکن رودکی کہ بڑےاولیاء تھے اور حضرت خلیفہ خاص تھے، جذبہ عشق الہی سے جوياے رہنما تھے اور کمال ریاضت اور مجاہدہ کرتے تھے۔ ایک روز بشارت ہوئی کہ جلال الدین پانی پتی کی خدمت کرو، وہاں تجھ کو نعمت حاصل ہوگی۔ چنانچہ آپ نے اس طرف کا قصد کیا اور روانہ ہوئے۔ یہاں حضرت نے خادمان سے فرمایا کہ ایک شخص فضول آتا ہے، آج دستر خوان پر انواع انواع کا کھانا حاضر کرتا اور شراب وغیرہ نامشروع چیزیں بھی چند رکھنا، اور دروازے پرگھوڑےمع ساز و یراق کے مہیا رکھنا۔ خادموں نے ایسا ہی کیا۔ جب حضرت حجت الاولیا تشریف لائے تو یہ سامان دیکھ کر کہ دروازے پر بھی اسباب دولت مندانہ مہیا ہے ، نہایت بد اعتقاد ہوئے۔ پھر دسترخوان پر کھانا نامشروع دیکھ کر اور بھی بدگمان ہو کر وہاں سے چلے اور دل میں کہا کہ یہ تو محض دھوکا ہوا۔ آخر صبح کو وہاں سے روانہ ہوئے۔ جب شام ہوئی تو در یافت کیا کہ یہ شہر کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ پانی پت ہے۔ آپ یہ حال دیکھ کر حیران ہوئے ۔ دوسرے دن پھر اسی طرح چلے ، شام تک اور وہیں موجود ہوئے۔ تیسرے دن آپ کو ایک جنگل نظر آیا اور اس میں درخت خشک تھے۔ ہر ایک درخت پر ایک ایک مخملی کلاه سر پر دیئے ہوئے بیٹھا تھا۔ اس سے انہوں نے دریافت کیا کہ راستہ کدھر ہے؟ اس نے جواب دیا کہ راستہ تو جلال کے دروازے پر بھول آیا۔ اگر پا نہیں ہے تو یہ دوآ دی سامنے سے آتے ہیں، ان سے دریافت کر۔ حضرت نے ان سے سوال کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے کیا در یافت کرتا ہے؟ تجھ سے پہلے ہی اس شخص نے راست راست کہہ دیا ہے کہ راستہ تو جلال کے دروازے پر ہے۔ یہ کہتے ہی غائب ہو گئے۔ پھر جو یہ نگاہ کر کے دیکھتے ہیں تو نہ وہاں جنگل ہے نہ وہ آدی ، پانی پت میں موجود ہیں۔ اب حضرت کو اعتقادی کلی ہوا اور حضرت کی خدمت میں چلے اور یہ سوچتے چلے کہ اگر آج حضرت کلاه سر اپنے پیر کی لحد سے مس کر کے مجھے کوعنایت فرما دیں اور شیرینی بھی مرحمت کریں تو میں پھر اعتقاد میں کسی طرح کا فرق نہ لاؤں گا۔ آخر یہی ہوا۔ آپ اس وقت حضرت مخدوم العالمین کے مزار اقدس پر تشریف رکھتے تھے اور ایک ہاتھ میں کلاه تھی ، مزارشریف کومس کر کے آپ کو عنایت کی اور پھر نیاز کا حلواحوالے کیا اور مقراض سے سرمونڈا۔ پھریہ حضرت نہایت معتقد ہوئے اور خدمت میں رہ کر خلافت سے مشرف ہوئے اور چند روز میں رتبه عالی پر پہنچے اور حجت الاولیاء ہوئے۔

اور جب حضرت حجت الاولیاء کو حضرت نے مرید کیا اور کلا ہ چارتر کی عنایت کی اور مقراض سر پر چلائی تو آپ مکان کو تشریف لائے۔ دیکھا کہ وہاں اسی طرح کا دستر خوان پر سامان مہیا ہے۔ آپ نے کھانا کھانا شروع کیا لیکن حضرت حجت الاولیا نے طعام نامشروع کے کھانے میں تامل کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اے احمد ، جو چیز کی غیر خدا ہے یا غیر نعمت اس کے کی ہے، اس سے دست کشی چاہئے۔ اس بات کے سننے سے بالکل وسواس حضرت کے جاتے رہے اور کوئی بدگمانی دل میں نہ رہی اور آپ کو ایک وجد طاری ہوا اور بآواز بلند تین مرتبہ کہا کہ حق حق حق !چنانچہ حضرت نے آپ کا نام عبدالحق  رکھا اور اکثر مکتوبات پر حق حق حق لکھتے ہیں۔ یہ آپ کے نسبت ہے اور پھر رتبه عالیہ پر پہنچ کر آپ وطن مالوفہ کوتشریف لے گئے اور بڑی بڑی کرامت آپ سے ظہور میں آئیں اور ہزارہا طالبان حق در جہ ولایت کو پہنچے۔ (جاری ہے) 

(قسط 3)

نقل ہے کہ ایک بار آپ مشرق کے سفر میں تھے کہ ایک موضوعے میں فروکش ہوئے۔ دیکھا تو تمام گاؤں کے آدمی بھاگنے پر آمادہ ہیں۔ ان سے دریافت کیا کہ تم لوگ کیوں بھاگتے ہو؟ انہوں نے عرض کی کہ حاکم ہم سے مال

تحصیل طلب کرتا ہے، اور اب کی مرتبہ ہمارے یہاں کچھ پیدا نہیں ہوا، اس واسطے ہم لوگ حاکم کے خوف سے بھاگتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اس کا روپہ دے دو تو پھر تو نہ بھاگو گے؟ انہوں نے عرض کی، پھر کیوں بھاگنے لگے تھے۔ حضرت مخدوم العالمین نے ارشاد کیا کہ پہلے تم اپنا گاؤں ہمارے ہاتھ فروخت کرو۔ انہوں

نے فروخت کر دیا اور کاغذ پر لکھ دیا۔ شام کو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اپنے یہاں سے لو ہا لائو ۔ وہ لوگ جس قدر ان کے یہاں آہنی آلات تھے سب حاضر کئے۔ آپ نے پاچک کے بٹورے میں ان کو رکھ کر آگ لگا دی اور بعد آدھی رات کے خفیہ طور پر آپ وہاں سے تشریف لے گئے ۔صبح کو وہ لوگ دیکھیں تو تمام طلائے خالص

ہے۔ ان لوگوں نے زرحام ادا کیا، اور اب تک ان کی اولاد موجود ہے اور وہ لوگ مر فہ حال ہیں۔ نقل ہے کہ ایک بار آپ کوہستان کی سیر کرتے پھرتے تھے کہ ایک جوگی آنکھیں بند کئے ہوئے کسی کوہ میں بیٹھا دیکھا۔ آپ اس کے قریب گئے۔ اس

نے آنکھیں کھول کر آپ سے کہا، اے شخص، تیرے حال پر مجھ کو رحم آتا ہے۔ جیب میں سے ایک سنگر یز نکال کر حضرت کے حوالے کیا اور کہا کہ یہ سنگ پارس ہے آپ نے اس کے ہاتھ سے لے کر ایک دریا میں پھینک دیا۔ یہ حال دیکھ کر جوگی در پے ہوا کہ اے شخص تو نے مجھ سے بھی کھویا اور آپ بھی نہ رکھا۔ بہتر اس میں ہے کہ دریا سے نکال کر میرے حوالے کر۔ آپ نے فرمایا کہ تو نے تو مجھ کو دے

دیا تھا، اب میں نے جو چاہا کیا۔ جوگی نے کہا کہ اس واسطے نہیں دیا تھا کہ تو دریا میں پھینک د ے۔

اگر اپنی خیر چاہتا ہے تو سنگ پارس کو دریا میں سے نکال ۔ آپ نے تبسّم فرمایا اور کہا کہ جا تو آپ نکال لا مگر اس شرط پر کہ اس دریا میں اور بھی سنگ اس قسم کے بہت ہیں، دوسرے کو ہاتھ نہ لگانا ۔ وہ جوگی دریا میں گیا اور دیکھا کہ کیا وہ پتھر

ہے، اسی طرح کے اور بھی پتھر بہت ہیں ۔ آخر جوگی نے ایک اپنا پتھر اور ایک اور لیا اور باہر آیا ۔ حضرت نے فرمایا کہ اے جوگی ۔ مردان خدا کے حکم میں زمین و آسمان ہیں، اور پارس ان کی نعلین کی گرد سے پیدا ہوتا ہے۔ ان کو سنگ پارس کی حاجت کیا ہے؟ یہ کرامت آپ کی ملاحظہ کر کے وہ جوگی مسلمان ہوا اور آخر شرف خدمت سے رتبہ ولایت کو پہنچا۔

نقل ہے کہ حضرت شیخ شرف الدین بوعلی قلندر سے ایک روز آپ بہت بضد ہوئے کہ اس راہ کومجھ پرمنکشف کرو۔ آپ نے فرمایا کہ صبر کر آج کل میں ایک شخض کلیر سے یہاں آئے گا، اس سے تجھ کو حاصل ہوگا۔ چنانچہ ایساہی ہوا۔ جب آپ نے خلافت پائی تو حضرت پیردستگیر نے فرمایا کہ اے جلال، سنت نبوی صلعم ادا کر اور نکاح کر۔ اول تو آپ نے عذر کیا، پھر قبول فرمایا۔ حضرت قطب العالمین نے ارشاد کیا کہ اے جلال، تجھ سے اولاد اس قدر عرصه عالم پر ہونے والی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ چنانچہ دیکھ کر لوح محفوظ میں، اور نیک تیرے ہیں۔ آخر شیخ زادہ ہائے کرنال میں آپ کی شادی ہوئی اور جب آپ مکان پر آئے تو اول آتے ہی بی بی سے فرمایا کہ بی بی ، وضوکے واسطے پانی لاؤ۔ آپ نے اسی وقت پانی لا کر دیا اور وضوکرایا۔آپ نے قرآن شریف بی بی صاحبہ کے روبرو رکھا اور فرمایا کہ پڑھ قرآن شریف ۔ بی بی صاحب نے فرفر پڑھنا شروع کیا، حالانکہ نا خواندہ تھیں۔ آخر حضرت بی بی سے پانچ فرزند اور دولڑکیاں تولد ہوئیں۔ اول حضرت مخدوم زادہ خواجہ عبدالقادر بہ شش واسطه و دین واسطه بنده آلہ دین مولف ہذاابن شیخ عبدالرحیم ابن نتھاحکیم ابن شیخ حسن حکیم بن شیخ عبد الصمد بن شیخ بوعلی بن خواجہ يوسف بن قطب عالم حضرت خواجہ عبد القادر ابن حضرت جلال الدین رحمته اللّٰہ علیہم اجمعین۔ نقل ہے کہ احد قلندر ولایت سے جذب الٰہی میں یہاں آیا اور لکھی جنگل میں مقیم ہوا۔ جہاں جس درویش کوسنتا ، وہاں جاتا اور خدمت کرتا۔ آخر ایک روز اس نے اکثر مشائخِ کی دعوت کی۔ چنانچہ آپ بھی تشریف لے گئے۔ جب کھانا سامنے آیا، سب نے ہاتھ کھینچا اور حضرت نے بھی ہاتھ کھینچا اور فرمایا کہ ابھی تونے اب تک اپنے خاص پیروں کو حرام کھانے سے بچایا ہے۔ اب بھی محفوظ رکھ ، اور حرام کو یہاں سے نکال به مجرداس فرمانے کے جس جس جانور کا گوشت مثل سگ وغیرہ کے دستر خوان پر تھا، وہ جانور بجنسہ صورت پڑ کر چلے گئے ۔ یہ حال جو قلندر نے دیکھا، قدم پکڑ لیئے اور عرض کیا کہ یا حضرت، میں نے اسی واسطے بی حرکت کی تھی کہ تا کامل کے حال سے مجھ کو اطلاع ہو۔ آخر مرید کیا اور خلافت دے کر ملتان کو روان فرمایا۔ (جاری ہے)


(قسط 2)

نقل ہے کہ ایک روز آپ گھوڑے پر سوار ہو کر جاتے تھے۔ حضرت مخدوم عالم شیخ شرف الدین بوعلی قلندر ؒنے دیکھ کر فرمایا کہ اچھا گھوڑا اور اچھا سوار ہے۔ یہ سنتے ہی آپ کو حالت طاری ہوئی اور اسی وقت ترک دنیا کر کے سیاحت کو تشریف لے گئے ۔ آخر بعد چالیس برس کے وطن میں آئے اور خدمت پیر روشن ضمیر سے مشرف ہوکر اس رتبهٔ عالیہ کو پہنچے۔

نقل ہے کہ ایک وقت آپ ہمراہ چند درویشوں کے بانسی کو تشریف لے گئے تھے۔ اور اس وقت حضرت شیخ جمال قطب عالم حیات تھے۔ ان کو علم ہوا کہ جلال پانی پتی تشریف لائے ہیں، ان سے ملاقات کر کے  ان کی برکت دعا سے ان کا سلسلہ جاری ہوگا۔ آپ ابھی تک شہر کے باہر تھے کہ شیخ جلال نے ایک خادم کوآپ کی طلب میں بھیجا۔ اس نے درویشوںکو شخ جمال کا  پیغام دیا۔ انہوں نے قبول کیا اور ایک جگہ اسباب تمام رکھ کر اور حفاظت کے واسطے حضرت کو وہاں چھوڑ کر ہمراہ خادم کے ہوئے اور نزدیک شیخ جمال کے آئے ۔ آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ برادران تمہارے ہمراہ کوئی اور درویش بھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ایک جوان ہمارے ہمراہ اور ہے، کہ اس کو اسباب پر چھوڑ کر آئے ہیں۔ شیخ موصوف نے کہا کہ ایک درویش کو بھیج کر اس جوان کو یہاں بلالو، کہ میرا مطلب اسی سے ہے، اور آپ چوکھٹ پکڑ کر کھڑے  رہے۔ جب حضرت تشریف لائے تو آپ نے پہچانا اور جونشان خواب میں دیکھے تھے وہ آپ میں نظر آئے۔ نہایت تعظیم وتکریم سے صدر میں بٹھایا اور کھانا کھلایا۔ بعد تناول طعام کے فاتحہ کوسب نے ہاتھ اٹھایا اور رخصت چاہی۔ حضرت شیخ جمال قطب عالم نے سب کو رخصت دی، اِلّاحضرت سے کہا کہ آپ تشریف رکھیے اور بعد کو چلے جانا۔ آپ ٹھہرگئے۔ اس وقت حضرت شیخ جمال نے حال شال حضرت مخدوم علاء الدین علی احمد صابرؒ کا اور ان کی دعا کا کےوقت چاک کرنے شال کے یہ دعا کی تھی کہ ہم نے تمہاری شال نیچے سے چاک کی کی اور حضرت فرید شکرگنج کا یہ فرمانا کہ مریدان علی احمد صابر سے ایک شخص ہوگا کہ وہ پھر جمال کے سلسلےکے جاری ہونے کی دعا کرے گا، چنانچہ وہ اب ہو۔ اور واقعے میں بھی آپ کی صورت دکھائی ہے۔ یہ سب بیان کیا۔ حضرت مخدوم عالم نے دعا کی اور وہ دعا مقبول ہوئی ۔ کیونکہ بعد وفات شیخ کے ان کے فرزند شیخ نور الدین کو ،که شش ماہہ تھے حضرت نظام الدین اولیا کی خدمت میں لے گئے تھے اور آپ نے خرقہ خاص عنایت کیا تھا اور خلیفہ کیا تھا۔ اسی واسطے بعد نام حضرت سلطان المشائخ کے نام شیخ نور الدین کا لکھتے ہیں۔ غرض آپ کی برکت اور سلطان المشائخ کی عنایت سے سلسلہ حضرت قطب عالم کا جاری ہوا۔ آخر حضرت مخدوم صاحب شیخ جمال سے رخصت ہوکر درویشاں کی جماعت میں شامل ہوئے۔ ان لوگوں نے یہ حال پہلے بھی معائنہ کیا تھا۔ بہت تعظیم سے پیش آئے۔ اور پہلے کہ اسباب حضرت کے دوش پر رکھ کر چلّہ کرتے تھے۔ آئندہ اس حرکت سے باز آئے اور بہت خدمت کیا کرتے۔ ایک روز آپ نے فرمایا کہ اب باری ہماری ہے، آج اسباب ہم لے چلیں گے۔ درویشوں نے عذر کیا۔ آپ نے نہ مانا۔ آخر اسباب سر پر رکھ کر چلے۔ سب نے دیکھا کہ اسباب سر سے اونچا جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر حیران ہوئے۔ اور بموجب فرمانے قطب عالم کے کہ اب تم پانی پت کو جاؤ ، وہاں تمہارا مقصد حاصل ہو گا ، آپ وطن کو تشریف لائے۔

(قسط 1)

حضرت جلال الدین کبیر الاولیا پانی پتی ؒ صاحب کشف و کرامت اور عالی درجات بزرگ تھے۔ آپ کو علم ظاہری اور باطنی میں کمال حاصل تھا۔ اول نام آپ کا  محمد تھا۔ اور جلال الدین خطاب عطا کیا ہوا پیر روشن ضمیر حضرت خواجہ شمس الدین ترک پانی کا ہے اور قدیم وطن آپ کا گازرون ہے۔ آپ نسباً عثمانی ہیں اور آپ کا سلسلہ نسب ویں پشت پر حضرت عثمان غنی ؓ سے ملتا ہے، اور آپ کی عمر  ایک سو ستر برس سے زیادہ تھی ۔ اور کمالات جو آپ کی ذات اقدس میں تھے کسی کو حاصل نہیں ہوئے۔ آپ نے خرقہ فقر واردات کا حضرت مخدوم العالمین خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی سے حاصل کیا، اور حضرت کے فرزند اور مرید اور خلیفہ وخدام کثرت سے تھے۔ اور ایام طفلی سے جذ بہ شوق الٰہی اور محبت خداوندی دامن گیر جان تھی ۔ اور اکثر آپ جنگل میں رہا کرتے اور ذکر خدا میں ہر وقت مشغول رہتے تھے۔ اور آخر عمر میں استغراق بدرجہ کمال ہو گیا تھا، چنانچہ خادم لوگ تین بار به آواز بلند حق حق حق آپ کے گوش مبارک میں کہتے، جب ہوش میں آتے اور نماز پڑھتے ۔ اورسماع  ہمیشہ سماعت فرماتے اورعرس مشائخ عظام کا اکثر کیا کرتے۔ اور آپ جلال کمال رکھتے اور علما ومشائخ آپ کی بزم میں بہت حاضر ہوتے اور فیض حاصل کرتے۔ اور صاحب کرامت اور مستجاب الدعوات تھے، خلفا آپ کے اکثر صاحب جذب اور قطب وقت تھے۔ کتاب بینظیر عالم گیرمسمیٰ بهزاد الابرارتصنیف حضرت سے ہے۔ اور آپ نے چالیس برس تک سیاحت فرمائی ہے اور ہمیشہ حج ادا کئے ہیں اور اکثر مشائخ کرام اور اولیائے عظام سے نعمت حاصل کی ہے۔ اور الہام زبانی سے آپ نے ارادہ ارادت پیرومرشد کا کیا تھا۔ وقت خلافت اسم اعظم، کہ سینہ بہ سینہ چلا آتا تھا، آپ کو عنایت ہوا، اور بجائے فرزند کے آپ ہی سجاده نشین تھے۔ اور تصرف آپ کا یہاں تک تھا کہ ایک ہزار آدمی کا کھانا ہر روز مطبخ میں پکتا تھا، اور اگر ہزار آدی سے کمتر ہوتے تو خادم لوگ کوچہ و بازارسے اس قدر آدمی فراہم کرلاتے۔ اور آپ بھی دسترخوان پر بیٹھتے تھے لیکن کچھ اس میں سے تناول نہ فرماتے۔ اور انواع اطعمہ موجود ہوتا تھا اور طباق سی وسر پوش، جس کے سامنے آتا، وہ اسی کو مرحمت ہوتا، پھرکر باورچی خانے میں نہ جاتا ۔مگر معلوم نہیں کہ اس قدر طباق وسر پوش کہاں سے آتے تھے کہ ہر روز ہزاروں تقسیم ہوتے تھے۔ آپ کو اکثر شوق شکار کا تھا، چنانچہ کبھی دس روز کے بعدکبھی پندرہ روز کے بعد آپ صحراکو تشریف لے جاتے اور دس دس روز تک وہاں شکارکرتے۔ اور اسی قدر کھانا وہاں بھی غیب سے موجود ہوتا اور اسی قدر آدمی دسترخوان پر موجود ہوتے اور آپ کے گھر میں ہر روز فاقہ رہتا تھا، اور ایک دن کا غلّہ بھی آپ کے گھر میں حاضر نہ ہوتا۔ خدا جانے کی کیا تصرف حضرت کا تھا، والله اعلم ۔ نقل ہے کہ قطب ابدال مخدوم شیخ شرف الدین بوعلی قلندر حضرت کو ایام طفولیت سے دوست رکھتے تھے، اور حضرت کے منظور نظر تھے اور بغیر دیکھنے کے آپ کوتسکین نہ ہوتی تھی۔ جہاں سنتے تھے کہ آپ تشریف لے گئے ہیں، وہیں حضرت بوعلی قلندر پہنچتےتھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ اپنے کھیت پر گئے تھے۔ حضرت قلندر صاحب کو جو معلوم ہوا کہ آپ کھیت پر گئے ہیں ، سوار ہو کر وہیں پہنچے۔آپ نے جو دیکھا کہ مخدوم صاحب تشریف لائے ہیں، ایک ظرف میں غلّہ تازہ بھر کرنذر کے واسطے لائے، اور وہ غلّہ نخود تھا۔ حضرت شاہ قلندراں نےتبسم فرمایا اورکہا کہ اے فرزند کیالائے ہو؟ آپ نے عرض کی کہ داناآپ کے گھوڑے کے واسطے۔ حضرت نے فرمایا کہ پہلے گھوڑے سے دریافت کر کہ تجھکو حاجت دانے کی ہے یا نہیں؟ وہ گھوڑا آپ گویا ہوا کہ میں سیر ہوں۔ آپ یہ گویائی اسپ کی دیکھ کر حیران ہوئے۔ حضرت مخدوم بوعلی شاہ قلندر نے ارشادفرمایا کہ اے فرزند جس قدر تیرے پاس دانہ ہے اس قدر خداوندتعالیٰ نے اولادا مجادعنایت کی۔ چنانچہ آپ کو  با سبب کثرت اولاد کے نوح ثانی کہتے ہیں۔ (جاری )

(نخود: انگریزی میں اسے chickpea اور مقامی زبان میں اسے کابلی چنا کے نام سے جانا جاتا ہے۔)


0 comments:

Post a Comment

خوش خبری