آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Tuesday, 13 October 2020

Jalwa e Darbar e Dehli-Akbar Allahabadi-Nazm-Class 9

جلوۂ دربار دہلی
اکبر الہ آبادی
سر میں شوق کا سودا دیکھا 
دہلی کو ہم نے بھی جا دیکھا
جو کچھ دیکھا اچھا دیکھا
کیا بتلائیں کیا کیا دیکھا

جمنا جی کے پاٹ کو دیکھا
اچھے ستھرے گھاٹ کو دیکھا
سب سے اونچے لاٹ کو دیکھا
حضرت ڈیوک کناٹ کو دیکھا

پلٹن اور رسالے دیکھے
گورے دیکھے کالے دیکھے
سنگینیں اور بھالے دیکھے
بینڈ بجانے والے دیکھے

خیموں کا اِک جنگل دیکھا
اس جنگل میں منگل دیکھا
برھما اور ورنگل دیکھا
عزت خواہوں کا دنگل دیکھا

سڑکیں تھیں ہر کمپ سے جاری
پانی تھا ہر پمپ سے جاری
نور کی موجیں لمپ سے جاری
تیزی تھی ہر جمپ سے جاری

ڈالی میں نارنگی دیکھی 
مخمل میں سارنگی دیکھی
بے رنگی بارنگی دیکھی 
دہر کی رنگا رنگی دیکھی

اچھے اچھوں کو بھٹکا دیکھا 
بھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا
منھ کو اگر چہ لٹکا دیکھا 
دل دربار سے اٹکا دیکھا

ہاتھی دیکھے بھاری بھرکم
ان کا چلنا کم کم تھم تھم
زرّیں جھولیں نور کا عالم 
میلوں تک وہ چم چم چم چم

پُر تھا پہلوۓ مسجد جامع
روشنیاں تھیں ہر سو لامع
کوئ نہیں تھا کسی کا سامع 
سب کے سب تھے دید کے طامع

سرخی سڑک پے کٹتی دیکھی 
سانس بھی بھیڑ میں گھٹتی دیکھی
آتش بازی چھٹتی دیکھی 
لطف کی دولت لٹتی دیکھی

چوکی اِک چولکھّی دیکھی
 خوب ہی چکھی پکھی دیکھی
ہر سو نعمت رکھی دیکھی
 شہد اور دودھ کی مکھی دیکھی

ایک کا حصہ منّ و سلوا
ایک کا حصہ تھوڑا حلوا
ایک کا حصہ بھیڑ اور بلوا 
میرا حصہ دور کا جلوا

اوج برٹیش راج کا دیکھا
 پرتو تخت و تاج کا دیکھا
رنگ زمانہ آج کا دیکھا 
 رُخ کرزن مہراج کا دیکھا

پہنچے پھاند کے سات سمندر
 تحت میں ان کے بیسیوں بندر
حکمت و دانش ان کے اندر 
 اپنی جگہ ہر ایک سکندر

اوج بخت ملاقی ان کا 
 چرخ ہفت طباقی اُن کا
محفل ان کی ساقی اُن کا 
 آنکھیں میری باقی اُن کا

ہم تو ان کے خیر طلب ہیں 
ہم کیا، ایسے ہی سب کے سب ہیں
ان کے راج کے عمدہ ڈھب ہیں 
 سب سامان عیش و طرب ہیں

—اکبر الہ آبادی
 
نظم کی تشریح
سر میں شوق کا سودا دیکھا 
دہلی کو ہم نے بھی جا دیکھا
جو کچھ دیکھا اچھا دیکھا
کیا بتلائیں کیا کیا دیکھا

جمنا جی کے پاٹ کو دیکھا
اچھے ستھرے گھاٹ کو دیکھا
سب سے اونچے لاٹ کو دیکھا
حضرت ڈیوک کناٹ کو دیکھا

پلٹن اور رسالے دیکھے
گورے دیکھے کالے دیکھے
سنگینیں اور بھالے دیکھے
بینڈ بجانے والے دیکھے

خیموں کا اِک جنگل دیکھا
اس جنگل میں منگل دیکھا
برھما اور ورنگل دیکھا
عزت خواہوں کا دنگل دیکھا


تشریح:- اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ ہمیں بھی شوق ہوا کہ دہلی جا کر دربار دہلی کا جلوہ دیکھیں۔ وہ دہلی آئے، دریائے جمنا کا پاٹ اور صاف ستھرے گھاٹ دیکھے۔ سب سے اونچے لاٹ (لارڈ)اور ڈیوک کناٹ کے دیدار کیے ۔ پلٹن، فوجی رسالے، ہتھیار بند گورے، کالے فوجی تھے اور انہیں کے ساتھ بینڈ باجے والے بھی موجود تھے۔ دور تک (کشمیری گیٹ تاکنگزوے کیمپ) خیموں کا جنگل تھا، جدھر نظر جاتی تھی خیمے ہی خیمے تھے۔ اس دربار دہلی کے لئے بلند مرتبہ عزت دار لوگوں کے درمیان مقابلہ ہور ہا تھا کہ وہ کس مقام پر رہے گا، اس کا خیمہ کہاں ہوگا، وہ انگریز حکمران کے کس قدر نزدیک رہے گا۔


سڑکیں تھیں ہر کمپ سے جاری
پانی تھا ہر پمپ سے جاری
نور کی موجیں لمپ سے جاری
تیزی تھی ہر جمپ سے جاری

ڈالی میں نارنگی دیکھی 
مخمل میں سارنگی دیکھی
بے رنگی بارنگی دیکھی 
دہر کی رنگا رنگی دیکھی

اچھے اچھوں کو بھٹکا دیکھا 
بھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا
منھ کو اگر چہ لٹکا دیکھا 
دل دربار سے اٹکا دیکھا

ہاتھی دیکھے بھاری بھرکم
ان کا چلنا کم کم تھم تھم
زرّیں جھولیں نور کا عالم 
میلوں تک وہ چم چم چم چم
تشریح:- اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ خیمے لگانے میں یہ اہتمام کیا گیا تھا کہ ہر کیمپ کا الگ راستہ تھا جو سڑک تک جاتا تھا۔ ہر طرف پانی کے پمپ لگے ہوئے تھے ، روشنی کے لیے لیمپ تھے۔ ہر شخص تیزی سے دوڑ دوڑ کر کام کر رہا تھا۔
کہیں سجاوٹ زیادہ تھی اور کہیں کم۔ماحول کو خوبصورت بنانے کے لیے درختوں ٹہنیوں پر مصنوعی نارنگیاں لگائی گئی تھی۔محفل میں موسیقی میں سارنگی بج رہی تھی۔اس قدر  لوگ تھے اور رونق تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پوری دنیا یہاں سمٹ آئی ہے، لوگوں کے ہجوم میں اچھے اچھے بھٹک رہے تھے۔ بھیڑ میں دھکے لگ رہے تھے۔ اس وجہ سے لوگوں کے چہرے لٹکے ہوئے تھے مگر دل دربار میں اٹکا ہوا تھا۔ بھاری بھرکم ہاتھیوں کی کمر پرسنہری کام والی جھولیں پڑی ہوئی تھیں ۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر آہستہ آہستہ چل رہے تھے، جدھر نظر جاتی تھی میلوں تک رونق نظر آرہی تھی۔


پُر تھا پہلوۓ مسجد جامع
روشنیاں تھیں ہر سو لامع
کوئ نہیں تھا کسی کا سامع 
سب کے سب تھے دید کے طامع

سرخی سڑک پے کٹتی دیکھی 
سانس بھی بھیڑ میں گھٹتی دیکھی
آتش بازی چھٹتی دیکھی 
لطف کی دولت لٹتی دیکھی

چوکی اِک چولکھّی دیکھی
 خوب ہی چکھی پکھی دیکھی
ہر سو نعمت رکھی دیکھی
 شہد اور دودھ کی مکھی دیکھی

ایک کا حصہ منّ و سلوا
ایک کا حصہ تھوڑا حلوا
ایک کا حصہ بھیڑ اور بلوا 
میرا حصہ دور کا جلوا

تشریح:- اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ جامع مسجد کے اطراف میں بھی لوگ موجود تھے۔ ہر طرف روشنی سے علاقہ جگمگا رہا تھا۔ اس قدر بھیڑ تھی کہ کوئی کسی کی بات سننا نہیں چاہتا تھا۔ سب کے سب اس بات کے خواہش مند تھے کہ کسی طرح دربار کا جلوہ دیکھیں۔ سڑکوں پرسرخ بجری کوٹ کر ڈالی گئی تھی۔ بھیڑ میں سانس لینا محال تھا، آتش بازی چھوڑی جارہی تھی ۔ مفت میں لطف اندوز ہونے کے سامان تھے۔ لطف کی دولت لٹتی دیکھی سے مراد ہے بغیر کوئی پیسہ خرچ کیے لطف حاصل کرنا۔
دربار کے لیے ایک بہت قیمتی چوکی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہر طرف نعمتیں رکھی ہوئی تھیں ( کھانے پینے کا سامان ) اسی کے ساتھ شہد اور دودھ  پر بیٹھنے والی مکھی بھی موجود تھی (اکبرکا طنز ) مگر عالم یہ تھا کہ کسی کے حصے میں لذیذ کھانے آرہے تھے تو کسی کو صرف حلوے پر اکتفا کرنا پڑ رہا تھا۔ کوئی بھیڑ اور ہنگاموں کا حصہ بنا ہوا تھے۔اکبر کہتے ہیں کہ اُن کے حصے میں دور کا جلوہ آیا یعنی اُنہونے دور ہی سے دربارِ دہلی منعقد ہوتے دیکھا۔


اوج برٹیش راج کا دیکھا
 پرتو تخت و تاج کا دیکھا
رنگ زمانہ آج کا دیکھا 
 رُخ کرزن مہراج کا دیکھا

پہنچے پھاند کے سات سمندر
 تحت میں ان کے بیسیوں بندر
حکمت و دانش ان کے اندر 
 اپنی جگہ ہر ایک سکندر

اوج بخت ملاقی ان کا 
 چرخ ہفت طباقی اُن کا
محفل ان کی ساقی اُن کا 
 آنکھیں میری باقی اُن کا

ہم تو ان کے خیر طلب ہیں 
ہم کیا، ایسے ہی سب کے سب ہیں
ان کے راج کے عمدہ ڈھب ہیں 
 سب سامان عیش و طرب ہیں

تشریح:- اکبر الہ آبادی کہتے ہیں اس موقع پر برٹش حکومت کا عروج نظر آیا۔ تخت و تاج کی چمک دیکھ کر آج کے زمانے کے رنگ کا خیال آیا (وقت کس قدر بدل گیا ہے) کبھی یہاں مغلوں کی حکومت تھی اور اب تخت پر لارڈ کرزن تشریف فرما ہیں۔
انگریز ہندوستان میں سات سمندر پار سے آئے تھے، ان کے ساتھ بیسیوں اعلیٰ افسر تھے، جن میں عقلیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور ہر ایک اپنی جگہ سکندر تھا۔ اس وقت انگریزوں کی خوش نصیبی پورے عروج پر تھی ان کی وسیع حکومت اور سلطنت کودیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ ساتویں آسمان تک انگریزوں کی حکومت ہے۔ انگریزوں کی محفل تھی اور اس محفل میں وہی چھائے ہوئے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اُن کی آنکھیں ان سب چیزوں کو دکھ رہتی تھیں ۔ آخری بند میں اکبر کہتے ہیں کہ وہ تو ان کے خیر خواہ ہیں اور صرف وہ ہی نہیں سب ہی لوگ اُن کی طرح بہی خواہ ہیں کیونکہ اُن کے حکومت کرنے کے طریقے شاندار ہیں اور عیش و عشرت کے سامان کی کوئی کمی نہیں۔(یہاں بھی اکبر نے طنز کیا ہے)۔

اکبر الہ آبادی
(1846تا1921) 
سید اکبر حسین رضوی نام، اکبر تخلص تھا۔ ضلع الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ بچپن ضلع شاہ آباد میں گزرا۔ 1855 میں اپنے خاندان کے ساتھ الہ آباد گئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ یہاں پہلے ایک مکتب اور پھر جمنا مشن اسکول میں داخل ہوئے لیکن 1857 کے انقلاب کے باعث تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ ملازمت کی ابتدا عرضی نویسی سے کی۔ کچھ مدت کے بعد الہ آباد ضلع میں نائب تحصیلدار ہو گئے ۔ ہائی کورٹ کی وکالت کا امتحان پاس کر کے وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ منصف کے عہدے پر بھی مامور ہوئے۔ 1898 میں انھیں حکومت سے خان بہادر کا خطاب ملا۔ اکبر کی زندگی کا آخری زمانہ ذہنی و جسمانی تکالیف اور پریشانیوں میں گزرا۔ پچھتّر برس کی عمر میں الہ آباد ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔
اکبر کو شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ انھوں نے عام رواج کے مطابق شاعری کی ابتدا غزل گوئی سے کی۔ کلام پر اصلاح غلام حسین وحید سے لی جو آتش کے شاگرد تھے۔ اکبر کے کلام میں غزلوں کی تعداد کافی ہے اور ان میں اتنی جان ہے کہ انھیں آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان کی انفرادیت ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں نظر آتی ہے۔ یہی شاعری ان کی دائمی شہرت کا باعث بنی اور اس میں کوئی دوسرا شاعر ان کا ہم سر نہ ہو سکا۔ اکبر کی ظریفانہ شاعری محض ہنسنے ہنسانے کا ذر یعہ نہیں۔ انھوں نے اس کے ذریعے انگریزی تعلیم کے منفی اثرات اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید پر بھرپور وار کیے اور چھوٹی چھوٹی نظموں سے وہ کام لیے جو بڑی بڑی تقریروں سے نہیں لیا جاسکتا تھا۔ اکبر الہ آبادی اگرچہ طنزیہ اور مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے مشہور ہیں لیکن ان کی شاعری کا ایک بڑا حصّہ سنجیدہ شاعری پر مشتمل ہے۔ انھوں نے بہت سی نظموں کے ترجمے بھی کیے ہیں۔

غور کرنے کی بات:
٭دسمبر 1898 میں لارڈ کرزن نئے وائسرائے کی حیثیت سے ہندوستان آئے۔ انھوں نے 1903 میں دربار کیا۔ اسی دربار پر اکبر الہ آبادی نے نظم لکھی ہے۔
٭دوسرے بند میں لاٹ اور ڈیوک دو لفظ آئے ہیں ہندوستان میں لارڈ ( Lord ) کو عام لوگ لاٹ کہتے تھے۔ یہ برطانیہ کا اعزازی خطاب ہے۔ اس کے معنی مالک اور آقا کے بھی ہیں ۔ گورنر یا حاکم صوبہ کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا تھا اسی طرح ڈیوک ( Duke ) بھی خطاب ہے نواب رئیس یا امیر کے لیے بھی یہ خطاب استعمال ہوتا تھا۔ 
٭جنگل میں منگل ہونا محاورہ ہے۔ جس کے لغوی معنی ہیں ویرانے میں عیش و عشرت کا سامان ہونا یا غیر آباد جگہ میں رونق اور چہل پہل ہونا۔ دربار دہلی کے موقع پر کشمیری گیٹ سے باہر کنگزوے کیمپ تک خیمے لگائے گئے تھے۔ اس وقت یہ جگہ غیر آباد اور ویران تھی۔ خیمے لگنے کے بعد جب دربار کے لیے لوگ یہاں آئے تو خوب رونق اور چہل پہل ہو گئی۔  مصرعے میں اسی جانب اشارہ ہے۔
٭ اکبر الہ آبادی انگریزی الفاظ کا استعمال معنی خیز انداز میں کرتے ہیں ۔ اس نظم میں بھی انھوں نے بہت سے انگریزی الفاظ استعمال کیے ہیں ۔

سوالوں کے جواب لکھیے :

1-”سر میں شوق کا سودا دیکھا“ سے کیا مراد ہے؟
جواب۔ اکبرالہ آبادی نے اس مصرعہ میں جلوۂ دربار دہلی دیکھنے کے لیے اپنے اس شوق کا ذکر کیا ہے جو انہیں دہلی کھینچ لایا۔ یہاں انہوں نے پایا کہ  دہلی کے لوگوں میں بھی اپنے مقصد کو پانے کے لیے وہی دیوانگی پائی جاتی ہے۔
2- ”خیموں کا اک جنگل دیکھا“ اس مصرعے میں شاعر نے کس منظر کی عکاسی کی ہے؟ 
جواب۔ اس مصرعہ میں شاعر نے دربار دہلی کی تصویر کھینچتے ہوئے اس کی رونق کا ذکر کیا ہے ۔ جب وہ دہلی آئے تو یہاں چاروں جانب سپاہیوں کے خیمے لگے تھے یعنی خیموں کا ایک جنگل آباد تھا۔شاعر نے اسی لیے اس کی جنگل سے مثال دی جہاں قطاروں میں درخت لگے ہوتے ہیں۔ یہ خیمے ویرانے میں لگے تھے اوراپنی چہل پہل سے جنگل میں منگل کا سماں پیش کر رہے تھے۔
3-”میرا حصّہ دور کا جلوہ“ شاعر نے کیوں کہا ہے؟ وضاحت کیجیے۔
جواب۔  اس مصرعے میں اکبر الہ آبادی دربار دہلی کی رونق اور چہل پہل کا ذکر کر رہے ہیں جہاں ہر طرف لوگوں کا ہجوم تھا دربار میں طرح طرح کی پکوانیں تھیں جس پر ایک ہجوم ٹوٹا پڑتا تھا اور ان پکوانوں کا لطف اٹھا رہا تھا۔ اکبر بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے ان پکوانوں تک نہیں پہنچ پاتے اور دور سے ہی ان کا دیدار کرتے ہیں۔اپنی اسی محرومی کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سب کے حصّے میں تو اُن کی خواہش کے مطابق چیزیں آگئیں لیکن اُن کے حصّے میں صرف دور کا جلوہ ہی آیا۔
     :مزید دیکھیں
 ایک مس سیمیں بدن سے کر لیا لندن میں عقد    اکبر الہ آبادی
 طنز و اصلاح کا شاعر

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری