مجلس عشقِ رسول یعنی میلاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم
(دوسری محفل)
وَمَا اَرْسَلْنٰـکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْن
کھانے میں آپ کو گھی، پنیراورکھجور میں ڈال کر پکائی ہوئی غذا بہت پسند تھی۔
سرکہ، شہد، حلوا،روغن زیتون اور کدوکی طرف رغبت تھی۔ کھجوراور روٹی بہت شوق سے
کھاتے۔
گوشت میں مرغ، بٹیڑ، بکری، دنبہ ،بھیڑ اور اونٹ وغیرہ کا گوشت کھاتے۔ مچھلی بھی
آپؐ نے کھائی ہے۔ فرماتے سب کھانوں میں سردار کھانا گوشت ہے ۔ اس سے یہ دھوکہ
نہ ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم برابر مرغ اور بٹیر کھاتے تھے۔ ان
پسندیدہ کھانوں کا موقع بہت کم آتھا ۔حضورؐ کے دن اکثر روزوں میں اور فاقوں
میں بسر ہوتے تھے ۔
کھانا کھا کر دعاء فرماتے کہ اے اللہ اس سے بہتر کھانا دے لیکن جب دودھ پیتے تو
فرماتے اے اللہ! ایسی ہی نعمت پھر دے۔ دودھ کبھی خالص استعمال فرماتے اور کبھی
اس میں ذرا سا پانی ملادیتے۔ ٹھنڈا پانی بہت پسندتھا۔ کشمش، کھجور یا انگور
کبھی پانی میں بھگو دیئے جاتے اوراسی سے پانی کو نتھار کر آپؐ پیتے
۔تربوز کو کبھی کبھی کھجور کے ساتھ نوش فرماتے۔ آپ تین انگلیوں سے کھاتے تھے۔
کسی اونچی جگہ پر رکھ کر کھانا کھانا آپؐ کو پسند نہ تھا۔ بہت آہستہ
آہستہ چبا کر کھانا کھاتے۔ جو کچھ سامنے ہوتا، اسی کو کھاتے۔ کبھی اکڑوں
بیٹھتے اور بھی ایک زانو پر بیٹھتے ۔لہسن اور پیاز سے بہت نفرت کرتے۔ مٹی کی
چھوٹی سی کوٹھری تھی جو آپ کا گھر تھا۔ زینت کے لئے ایک بار دیوار پر
چادر لٹکائی گئی تو آپ نے منع فرمايااور بتایا کہ کپڑے اس لیے نہیں کہ
دیواروں کی زینت ہوں۔
گھوڑے کی سواری آپ کو بہت پسندتھی۔ گھوڑوں اور اونٹوں کو دوڑانے کے
مقابلہ میں آپ شریک ہوتے۔ تیراندازی کے مشق میں بھی حصّہ لیتے۔آپ
کشتی بھی لڑے ہیں اورعرب کے مشہور پہلوان رکانہ کو آپ نے کئی بار پچھاڑا ہے۔
آپ کبھی کبھی مزاح بھی فرماتے۔ ایک شخص نے آپؐ سے سواری مانگی۔ آپؐ نے فرمایا
کہ میں تم کو اونٹنی کا بچّہ دوں گا۔ اس نے کہا حضورمیں اونٹنی کا بچہ
کیا کروں گا۔ آپ نے فرما یاکوئی اونٹ ایسا بھی ہے جواونٹنی کا بچّہ
نہ ہو؟
ایک بار ایک بوڑھی عورت نے درخواست کی کہ آپؐ اس کے لئے جنت کی دعاء فرمادیں۔
آپؐ نے کہا بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی۔ وہ عورت یہ جواب سُن کر روتی ہوئی واپس
ہوئی، تو آپ نے فرمایا کہ اُس کو پکا رکر کہہ دو کہ بوڑھی عورتیں جنت میں جوان
ہو کر جائیں گی، بوڑھی نہیں رہیں گی۔
اُسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
آپ فرماتے، میں اچھے اخلاق کو مکمل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ یعنی اچھی
عادتوں کو پورا کرنے کے لئے آیا ہوں۔ قرآن میں ہے ”بے شک اچھی عادتوں میں آپؐ
کا درجہ بڑا ہے۔“ اور قرآن میں یہ بھی ہے کہ اے لوگو! رسول کی زندگی میں ایسی
باتیں ہیں جن کی تم پیروی کرو۔ اور یہ بھی ہے کہ اے لوگو تمہارے پاس تمہی میں
سے ایک رسول آئے ہیں‘وہ ایسے نرم دل ہیں کہ تمہاری تکلیف دیکھ کر ان کو تکلیف
ہوتی ہے۔ ان کو لالچ ہے تو اس بات کی کہ وہ تمہارا کچھ بھلا کر دیں۔ اور وہ
ایمان والوں پر شفقت اور مہربانی فرماتے ہیں۔ اور قرآن میں یہ بھی ہے کہ اللہ
کی مہربانی سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نرم دل بناکر بھیجا گیا
ہے۔ اگر آپ دل کے سخت ہوتے تو لوگ آپ کے چاروں طرف جمع نہ ہوتے( اور لوگ اچھی
باتیں جان نہ سکتے )۔ آپ کی بیوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنها کا کہنا
ہے کہ آپ کی عادتیں وہی تھیں جن کی تعلیم قرآن میں ہے۔
رعایت مروت:
ایک مرتبہ آپ اونٹ پر سوار تھے۔ ایک صحابی( یعنی آپ کے سنگ میں رہنے والے) آپ
کے ساتھ تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا”آؤ سوار ہو لو ۔“انھوں نے اس وجہ سے انکار
کیا کہ حضور کی بے ادبی ہوگی۔ آپ نے کئی بار کہا ۔ جب نہ مانے تو آپؐ اتر گئے۔
مجبوراً صحابی کو سوار ہونا پڑا۔
حضرت زینبؓ کے نکاح میں آپ نے دعوت ولیمہ کی ،کچھ لوگ دعوت کے بعدبھی
بیٹھے رہے۔حضرت زینبؓ بھی وہیں تھیں( اس وقت تک پردہ کا حکم نہیں ہوا تھا)۔
آپؐ چاہتے تھے کہ لوگ چلے جائیں۔ لوگوں کو خیال نہیں تھا۔ آپؐ کبھی باہر جاتے
کبھی اندر آتے لیکن زبان سے لوگوں کو کہہ نہ سکے کہ چلے جاؤ۔ اس واقعہ
سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ میں کتنی مروت تھی اور آپ چپ چاپ کتنی تکلیف اٹھا لیتے
تھے۔
مدینہ میں ایک مرتبہ کال پڑا۔ ایک شحض بھوک سے نڈھال ہو کر ایک کھجور کے باغ
میں گھس گیا۔ خوب کھجوریں کھائیں اور کچھ گھرلانے کے لئے رکھیں۔ اتنے میں باغ
کا مالک آپہنچا اور سب کچھ چھین لیا۔ آپ کو جب معلوم ہوا تو باغ کے مالک کو بلا
بھیجا اور فرمایا ”یہ بے چارہ جاہل تھا اسے تم بتاتے ، یہ بھوکا تھا اس کو
کھانا کھلاتے۔“ اور پھر کھجوروں کے بدلہ میں باغ کے مالک کو حضور نے غلّہ
دیا۔ حضورؐ ہمیشہ اسی طرح لوگوں کے ساتھ رعایت اور مہربانی سے پیش آتے
تھے۔
ایک شخص آپؐ کے پاس آیا۔ آپؐ نے بڑی نرمی اورمحبت سے بات چیت کی۔ جب وہ چلا
گیا توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آپ تو اس شخص کو اچھانہیں سمجھتے
تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :۔
” اللہ سب سے برا اس کو سمجھتا ہے جس کی بات چیت کڑی اور سخت ہو اور اس کی سخت
بات سے لوگ اس کے پاس اُٹھنا بیٹھنا چھوڑ دیں ۔“
نیک برتاؤ اور اچھا سلوک کرنے میں آپؐ مسلمان، کافر، دوست، دشمن سب کو
برابر سمجھتے۔ ہر سے ایک طرح ملتے۔
(جاری : کل تیسری محفل میں پڑھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر
اوصاف)
0 comments:
Post a Comment