ریڈ کراس سوسائٹی
جوڑ کا لال نشان آپ نے اکثر دیکھا ہوگا۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ یہ شان کس
طرح ڈاکٹروں کے لیے مخصوص ہو گیا۔ یہ بھی جاننا مناسب ہوگا کہ کس طرح کسی ایک
شخص کے ذہن میں خدمت خلق کا جذ بہ ادارے کی شکل میں بدل جاتا ہے۔ اور بڑھتے
بڑھتے دنیا کے ہر گوشے میں پھیل جاتا ہے ۔ آج ریڈ کر اس سوسائٹی صرف علاج کا
ادارہ نہیں بلکہ انسانی ہمدردی اور خدمت کا سب سے بڑا عوارمی مور چہ بھی ہے ۔
آیئے اس سوسائٹی اوراس کے قائم کرنے والےکے بارے میں بعض معلومات حاصل کریں۔
سو سال پہلے کی بات ہے۔ اٹلی کے ایک چھوٹے شہر سلفر ینو
پر آسٹریا کی طاقتور فوج کا قبضہ تھا۔ فرانس نے اپنے دوست ممالک کی مدد سے
آسٹریا کی فوج پر حملہ کر دیا۔ بڑی خوں ریز لڑائی ہوئی ۔ صرف پندرہ گھنٹے کی
لڑائی کے نتیجے میں دونوں طرف کے چالیس ہزار سپاہی زخمی ہو چکے تھے۔ پورا
میدان جنگ لاشوں اور زخمیوں سے اٹا پڑا تھا۔ لڑائی بند ہونے کے بہ ظاہر کوئی
آثارنظرنہ آتے تھے۔ لیکن بارش اور ہوا کا ایک طوفان آیا اور اس رحمت خداوندی
نے فریقین کو جنگ بند کرنے پر مجبور کردیا۔
انھی دنوں سلفر ینو میں فرانس کے کسی بینک
کا ایک عہدے دار جین ہنری ڈونان بھی موجود تھا۔ وہ شہنشاہ فرانس نیپولین سے
ملنے سلفرینوگیا تھا۔ ڈو نان کو الجزائر میں اپنے کیمپوں میں پانی کا
معقول بندوبست کرنا تھا۔ اور اسی لیے وہ نپولین سے مل کر خاص سہولتیں حاصل
کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ڈونان نے جب جنگ کی ان تباہ کاریوں کو دیکھا تو وہ اپنا
کام بھول بیٹھا۔ ہزاروں سپاہیوں کو خاک و خون میں نہ تڑپتا ہوا دیکھ کر اس کا
دل رو پڑا۔ زمین آب پاشی، بینک اب اسے کوئی چیز یاد نہ رہی ۔ اب اس کے سامنے
یہی مقصد تھا کہ وہ کسی طرح ان تڑپتے ہوئے زخمی سپاہیوں کی مدد کرے اور انھیں
موت سے بچائے ۔ اسی مقصد کے لیے وہ فوراً سلفرینو کی سمت روانہ ہو گیا۔ وہاں
اور اس کے قریب کے گاؤں کے لوگوں سے ملا۔ انھیں انسانیت بھائی چارے کا واسطہ
دے کر اس بات پر راضی کیا کہ وہ زخمی سپاہیوں کی خبرگیر کرنے میں اسکاہاتھ
بٹائیں۔"ہم سب بھائی ہیں"۔ ڈوٹان کے اس نعرے نے آخر لوگوں کے دلوں میں محبت
کا جذبہ پیدا کردیا۔ تین سو افراد اکٹھا ہوئے ۔ بہت سی خواتین نے بھی اس کا
ساتھ دیا۔
میدان جنگ میں ہزاروں زخمی سپاہی بھوک، پیاس اور
درد کی تکلیف میں کراہتے نیم مردہ پڑے تھے۔ ڈونان کے گروہ نے زخمیوں کی مرہم
پٹی کی اور ابتدائی طبی امداد بہم پہنچائیں زخمی سپاہیوں کو اٹھا کر قریب
کے دیہاتوں میں لے جایاگیا جہاں ان کا باقاعدہ علاج کیا گیا۔
لڑائی ختم ہوگئی لیکن ڈونان کی بے چینی قائم رہی۔ اس نے
جنیوا میں دوبارہ اپنے کاروبار میں دلچسپی لینے کی کوشش کی لیکن زخمی سپاہیوں
کا دکھ اور تکلیف دہ نہ بھول سکا۔ اب وہ ایک ایسی با قاعدہ تنظیم کا خواب
دیکھنے لگا جو عالمی پیمانے پر زخمی سپاہیوں کی مدد کر سکے۔ 1861 میں اس نے "
سلفرینو کی یاد میں“ نامی ایک کتابچہ تیار کیا اوراس کی ہزاروں کا پیاں چھپوا
کر یوروپ میں تقسیم کروادیں ۔ اس کتابچے نے یوروپ میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ جنگ
کے بھیانک نتائج کو پڑھ کر با شعور طبقہ چونک پڑا اور سبھوں نے ایسی سوسائٹی
کی ضرورت محسوس کی جو زخمی سپاہیوں کی مدد کے لیے منظم طریقے سے کچھ کر سکے ۔
ڈونان نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے ایک کمیٹی بنائی۔ اس کمیٹی نے جنیوا میں ایک
کانفرنس بلائی ۔ ڈونان نے اس کی کامیابی کے لیے انتھک کوشش کی ۔ وہ لوگوں سے
ملتا۔ انھیں کانفرنس میں شامل ہونے کی دعوت دیتا اور اپنے مقصد میں کامیابی
کے لیے ان کی مدد مانگتا۔ اس نے ہزاروں خطوط دنیا بھر میں بھیجے۔ اس کی
مخالفت بھی ہوئی لیکن وہ اپنی دھن کا پکا تھا۔ آخر اکتوبر 1863 میں کانفرنس
ہوئی ۔ جس میں سترہ ملکوں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔ جلسے میں سوسائٹی کے
اغراض و مقاصد پر غور کیا گیا۔ اس کے بعد جنیوا کی دوسری میٹنگ میں ایک تجویز
منظور ہوئی۔ ایک عالمی قانون بنایا گیا ۔ آج تک اس قانون کی پابندی ہوتی ہے۔
اس طرح ریڈ کراس سوسائٹی وجودمیں آئی1864 سے ریڈ کراس کے افراد کو اسی نشان
سے پہچانا جانے لگا۔
ریڈ کراس سوسائٹی اس طرح اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی اور اس کی
ترقی ہوتی گئی۔ لیکن اس کی کامیابی کے پیچھے ہنری ڈونان کی قربانی کا بڑا
ہاتھ ہے۔ ریڈ کراس سوسائٹی کی وجہ سے وہ اپنے کاروبار پر توجہ نہ دے سکا۔ اس
کا کاروبار تباہ ہو گیا ۔ سب سے تکلیف دہ بات تو یہ ہوئی کہ ریڈ کراس سوسائٹی
نے اسے کچھ عرصے کے لیے نظر انداز کر دیا اور ڈو نان کسی نامعلوم جگہ پر چلا
گیا۔
پندرہ سال بعد سوسائٹی کا سالانہ اجلاس روم میں ہوا۔ اجلاس
جاری تھا کہ صدر کو کسی اسکول کے ایک معلم کا خط موصول ہوا جس میں ڈونان کا
پتہ درج تھا۔ سوسائٹی کے افراد نے یہ محسوس کیا کہ ڈونان کو قابل عزت جگہ دی
جانی چاہیے۔ اسے نوبل پرائز دیا گیا لیکن پندرہ سال کے اس عرصے میں اس کی صحت
کافی گر چکی تھی ۔ وہ دوبارہ صحت یاب نہ ہوسکا۔ آخر 1910 میں اس کا انتقال
ہوگیا۔
ریڈ کراس سوسائٹی انسانیت کی خدمت آج بھی اسی طرح کر رہی ہے۔
یہ سوسائٹی دنیا کے ہر ملک میں قائم ہے۔ کہیں سیلاب آجاۓ ، قدرتی آفات میں
انسانی زندیگی کا نقصان ہوجائے یا قتل وخون ک واقعات ہوں ہر جگہ ریڈ
کراس سوسائٹی کی شاخیں انسانی خدمت کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کرتی ہیں۔
غور کیجیے
خدمت خلق کو اپنی زندگی میں مشن بنا لینا بڑا کام ہے۔ ذاتی نقصانات کے باوجود
ڈونان نے دنیا کے لیے جو نمایاں کام کیےایسے کاموں کی زیادہ مثال نہیں ملتی۔
ایسے لوگ قابل قدر ہوتے ہیں ۔
ڈونان نے ایک چھوٹے سے شہر میں جس کام کی بنیاد رکھی ، وہ پوری دنیا میں
پھیلا ۔ اس کا پیغام آج ہر خاص و عام جانتا ہے ۔
سوچیے اور بتائیے:
سوال1:ہنری ڈونان نپولین سے کس مقصد سے ملنے گیا تھا؟
جواب:
ہنری ٹونان شہنشاہ فرانس نپولین سے ملنے خاص سلفرینوگیا تھا۔ ڈونان کو
الجزائر میں اپنے کیمپوں میں پانی کا معقول بندوبست کرنا تھا۔ اور اسی لیے وہ
نپولین سے مل کر خاص سہولتیں حاصل کرنا چاہتا تھا۔
سوال2:ڈونان کو ریڈ کراس سوسائیٹی قائم کرنے کا خیال کیوں پیدا ہوا؟
جواب:میدان جنگ میں ہزاروں زخمی سپاہی بھوک، پیاس اور درد کی تکلیف میں کراہتے اور
نیم مردہ دیکھ کر ٹوان کا دل کانپ اٹھا اور اس نے ایک ٹیم بناکرزخمیوں کی
مرہم پٹی کی اور ابتدائی طبی امداد بہم پہنچائیں زخمی سپاہیوں کو اٹھا کر قریب
کے دیہاتوں میں لے جایاگیا جہاں ان کا باقاعدہ علاج کیا گیا۔ لڑائی ختم
ہونے کے بعد بھی ڈونان کی بے چینی قائم رہی۔ اس نے جنیوا میں دوبارہ اپنے
کاروبار میں دلچسپی لینے کی کوشش کی لیکن زخمی سپاہیوں کا دکھ اور تکلیف دہ نہ
بھول سکا۔ اب وہ ایک ایسی با قاعدہ تنظیم کا خواب دیکھنے لگا جو عالمی پیمانے
پر زخمی سپاہیوں کی مدد کر سکے۔ اور اسی طرح اسے ریڈ کراس سوسائٹی قائم
کرنے کا خیال آیا۔
سوال3:ریڈ کراس سوسائی کے مقاصد کیا ہیں؟
جواب:
ریڈ کراس سوسائٹی کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔ یہ سوسائٹی دنیا کے
ہر ملک میں قائم ہے۔ کہیں سیلاب آجاۓ ، قدرتی آفات میں انسانی زندیگی کا
نقصان ہوجائے یا قتل وخون ک واقعات ہوں ہر جگہ ریڈ کراس سوسائٹی کی شاخیں
انسانی خدمت کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کرتی ہیں۔
سوال4:ڈونان کو کون سا انعام دیا گیا اور کیوں؟
جواب:ٹونان کو ریڈ کراس سوسئٹی کے قیام کے اعتراف میں نوبل انعام سے نوازا
گیا۔
0 comments:
Post a Comment