عورتوں کے حقوق
سرسید احمد خاں
تربیت یافتہ ملک اس بات پر بہت غل مچاتے ہیں کہ عورت اور مرد دونوں باعتبار آفرینش کے مساوی ہیں اور دونوں برابر حق رکھتے ہیں ۔ کوئی وجہ نہیں کہ عورتوں کو مردوں سے کم اور حقیر سمجھا جاوے۔
با ایں ہمہ، ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر ، قدر و منزلت عورتوں کی مذہب اسلام میں کی گئی ہے اور ان کے حقوق اور ان کے اختیارات کو مردوں کے برابر کیا گیا ہے، اس قدر آج تک کسی تربیت یافتہ ملک میں نہیں ہے ۔ مسلمان قانون میں عورتوں کے مردوں کے برابر حقوق اور اختیارات تسلیم کیے گئے ہیں۔
حالت نابالغی میں جس طرح مرد، اسی طرح عورت، بے اختیار اور ناقابل معاہدہ متصور ہے؛ إلا بعد بلوغ وہ بالکل مثل مرد کے مختار ہے اور ہر ایک معاہدہ کے لائق ہے۔
جس طرح مرد، اسی طرح عورت، اپنی شادی کرنے میں مختار ہے۔ جس طرح کہ مرد کا ہے رضا نکاح نہیں ہوسکتا، اسی طرح عورت کی بلا رضا مندی نکاح نہیں ہوسکتا۔
وہ اپنی تمام جائیداد کی خود مالک اور مختار ہے اور ہر طرح اس میں تصرف کرنے کا اس کو اختیار حاصل ہے۔
وہ مثل مرد کے ہر قسم کے معاہدے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور اس کی ذات ، اور اس کی جائداد ، أن معاہدوں اور دستاویزوں کی بابت جواب دہ ہے، جو اس نے تحریر کی ہوں۔
جو جائیداد قبل شادی اور بعد شادی اس کی ملکیت میں آئی ہو؛ وہ خود اس کی مالک ہے، اور خود اس کے محاصل کی لینے والی ہے۔
وہ مثل مرد کے دعوی بھی کرسکتی ہے، اور اس پر بھی دعویٰ ہوسکتا ہے۔
وہ اپنے مال سے ہر ایک جائداد خرید سکتی ہے، اور جو چاہے اس کو بیع کرسکتی ہے۔ وہ مثل مرد کے ہرقسم کی جائداد کو ہبہ ، اور وصیت اور وقف کرسکتی ہے، وہ رشتہ داروں اور شوہر کی جائداد میں سے بہ ترتیب وراثت ورثہ پاسکتی ہے۔
وہ تمام مذ ہی نیکیوں کو جو مرد حاصل کرسکتا ہے حاصل کرسکتی ہے۔
وہ تمام گناہوں اور ثواب کے عوض دنیا اور آخرت میں وہی سزاو جزا پاسکتی ہے، جو مرد پاسکتا ہے ۔
اس مقام پر جو ہم کو بحث ہے، وہ صرف مردوں کے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک، اورحسن معاشرت اور تواضع اور خاطر داری اور محبت اور پاس خاطر اور ان کی آسائش اور آرام اور خوشی اور فرحت کی طرف متوجہ ہونا اور ان کو ہر طرح پرخوش رکھنا، اور بعض اس کے کہ عورتوں کو اپنا خدمت گذار تصور کریں، ان کو اپنا انیس اور جلیس، اور رنج و راحت کا شریک اور اپنے کو ان کی اور ان کو اپنی باعث مسرت اور تقویت کے سمجھنے پر، بحث ہے بلاشبہ جہاں تک کہ ہم کو معلوم ہے، تربیت یافتہ ملکوں میں عورتوں کے ساتھ یہ تمام مراتب بخوبی برتے جاتے ہیں اور مسلمان ملکوں میں ویسے نہیں برتے جاتے ، نعود بالله منها !
مہذب قوموں نے، باوجود یہ کہ ان کے یہاں کا قانون نسبت عورتوں کے نہایت ہی ناقص اور خراب تھا، اپنی عورتوں کی حالت کو نہایت اعلی درجے کی ترقی پر پہنچایا ہے، اور مسلمانوں نے، باوجود یہ کہ ان کا مزہبی قانون نسبت عورتوں کے، اور ان کی حالت بہتری کے تمام دنیا کے قوانین سے بہتر اور عمدہ تھا مگر انھوں نے اپنے نامہذب ہونے سے ایسا خراب برتاؤ عورتوں کے ساتھ اختیار کیا ہے، جس کے سبب تمام قومیں ان کی حالت پرہنستی ہیں اور ہماری ذاتی برائیوں کے سبب، اس وجہ سے کہ قوم کی قوم ایک حالت پر ہے الا ماشاء اللہ اس قوم کے مذہب پر عیب لگاتی ہیں۔
پس اب یہ زمانہ نہیں ہے کہ ہم ان باتوں کی غیرت نہ کریں اور اپنے چال چلن کو درست نہ کریں اور جیسا کہ مذہب اسلام روشن ہے، خود اپنے چال چلن سے اس کی روشنی کا ثبوت لوگوں کو نہ دکھائیں۔ (تلخیص)
سرسید احمد خاں
(1817 - 1898)
سید احمد خاں دہلی کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ سید احمد نے اپنے زمانے کے اہل کمال سے فیض حاصل کیا۔ 1839 میں انھوں نے انگریزی سرکار کی ملازمت اختیار کی اور اس سلسلے میں مختلف شہروں میں ان کی تقرری ہوئی ۔ 1862 میں جب وہ غازی پور میں تھے، انھوں نے سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک انجمن بنائی۔ اس انجمن کا مقصد ہندوستانیوں میں مختلف علوم، خاص کر سائنسی علوم کے مطالعے کو فروغ دینا تھا۔ 1869 میں سید احمد خاں ایک سال کے لیے انگلستان گئے ۔ واپس آکر انہوں نے انگریزی کے علمی اور سما جی رسالوں کی طرز پر اپنا ایک رسالہ ،تہذیب الاخلاق، جاری کیا۔ اس سے اردو میں مضمون نگاری کو بہت ترقی ملی۔
سید احمد خاں نے علی گڑھ میں 1857 میں ایک اسکول قائم کیا۔ یہ اسکول 1878 میں محمڈن اینگلو اورنیٹل کالج اور پھر 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ہندوستان کا ایک نمایاں تعلیمی ادارہ بن گیا۔ 1878 میں سید احمد خاں کو 'سر' کا خطاب ملا۔ اس لیے لوگ انھیں 'سرسید' کے نام سے جانتے ہیں ۔ سرسید آخر عمر تک قومی سرگرمیوں، کالج کی دیکھ بھال اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہے۔ ان کی متعدد تصانیف میں 'آثارالصنادید' ، 'اسباب بغاوت ہند' اور 'سرکشی ضلع بجنور ' خاص طور پر اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کے مضامین کئی جلدوں میں شائع ہوئے جن میں سائنس، فلسفہ، مذہب اور تاریخ سے متعلق مضامین ہیں۔
سر سید نے لمبی لمبی تحریروں کے بجائے چند صفحات میں کام کی بات کہنے کا طریقہ رائج کیا۔ اردو ایسے (Essay) اور انشائیہ نگاری کی روایت کو فروغ دینے میں سرسید اور ان کے رفیقوں نے نمایاں رول ادا کیا ہے۔ سرسید اپنے زمانے کے بڑے مصلحین میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ انھوں نے زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح کا بیڑہ اٹھایا۔ اپنی قوم کو جدید تعلیم کی طرف مائل کرنے میں وہ ہمیشہ سرگرم رہے۔ 'عورتوں کے حقوق' پر ان کا یہ مضمون بھی ان کی اصلاحی خدمات کی ترجمانی کرتا ہے۔
خلاصہ:
عورتوں کے حقوق سرسید احمد خاں کے ایک طویل مضمون کی تلخیص ہے۔ اس مضمون میں سرسید نے عورتوں کے حقوق پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ کہتے ہیں تربیت یافتہ ملک (مغربی ممالک) یہ شور مچاتے ہیں کہ اپنی پیدائش کے اعتبار سے عورت اور مرد برابر ہیں، اسلئے عورتوں کو حقیر سمجھنے کے بجائے مردوں کے برابر سمجھاجائے۔ سرسید کہتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کے حقوق اور ان کے اختیارات کو مردوں کے برابر کیا ہے۔ مسلمانی قانون میں عورتوں کے مردوں کے برابر اور اختیارات دئے گئے ہیں جبکہ تربیت یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہے۔ اس کے بعد سرسید مثالیں دے کر بتاتے ہیں کہ حالت نابالغی سے لے کر بالغ ہونے تک جو حقوق مردوں کے ہیں وہی عورتوں کے بھی ہیں۔ بالغ ہونے کے بعد ایک عورت اپنی شادی کرنے کی مختار ہے جو جائداد اس کی ملکیت میں ہے اسے فروخت کرسکتی ہے۔ جائداد خرید سکتی ہے، اور وراثت کی ترتیب کے اعتبار سے رشتہ داروں اور شوہر کی جائداد میں حصہ پاسکتی ہے۔ وہ تمام اچھے اور برے کاموں میں مرد کے برابر ہی سزا اور جزا پاسکتی ہے۔ اس کے بعد سر سید کہتے ہیں کہ فرق یہ ہے کہ بعض مقامات پر مرد عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے اور ان کے ساتھ خادماوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ مہذب قوموں نے جن کے یہاں عورتوں کے تعلق سے قانون ناقص تھا اور خراب تھا، اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور اعلی درجہ کی ترقی پر پہنچایا جبکہ ہم نے ایسا نہیں کیا اسی لئے مہذب قو میں ہم پر ہنستی ہیں ہمیں چاہئے کہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دئے ہیں اس کا خیال رکھیں۔ اپنے ذاتی چال چلن سے اسلام کو رسوا نہ کریں۔ |
غور کرنے کی بات:
اس مضمون میں سرسید نے عورتوں کے حقوق پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ مذہب اسلام میں عورت اور مرد کو برابرکا درجہ دیا گیا ہے۔
سوالوں کے جواب:
1۔اسلام میں عورتوں کو کیا حقوق اور اختیارات دیے گئے ہیں؟
جواب:اسلام نے مردوں کے برابر حقوق اور اختیارات دئے ہیں ۔ حالات نابالغی سے لے کر بالغ ہونے تک جو اختیارات مردوں کے ہیں، وہی عورتوں کے بھی ہیں۔ کوئی مرد کسی عورت سے زبردستی شادی نہیں کرسکتا۔ عورت اپنی شادی خود کرنے کی مختار ہے۔ عورت کو شادی سے قبل اور شادی کے بعد جو جائداد ملے وہ اس کی خود مالک ہے، اور جس طرح چاہے اس کا استعمال کرسکتی ہے۔ وہ اپنے مال سے جائیداد خرید سکتی ہے اور بیچ بھی سکتی ہے۔ جس طرح تمام گناہوں اور ثواب کے عوض عورت دنیا اور آخرت میں جزاوسزا پاسکتی ہے جومرد پاسکتا ہے۔
2- تربیت یافتہ ملکوں میں عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟
جواب:تربیت یافتہ ملکوں میں عورتوں کے تعلق سے قانون نہایت ناقص اور خراب تھا لیکن مردوں نے
اپنے اچھے رویے اور حسن سلوک سے عورتوں کو نہایت اعلی درجے کی ترقی پر پہنچایا۔
3۔مردوں کو عورتوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے؟
جواب:مردوں کو عورتوں کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کرنا چاہیے، ان کی آسائش، آرام اور خوشی کا خیال رکھیں، انہیں اپنا خدمت گزار سمجھنے کے بجائے اپنا ہمدم ، دوست اور رنج وراحت کا شریک سمجھیں۔
عملی کام :
ہمارے ملک میں عورتوں کی حالت پر ایک مختصر مضمون لکھیے۔
مختلف شعبوں میں شہرت حاصل کرنے والی پانچ ہندوستانی عورتوں کے نام لکھیے۔
0 comments:
Post a Comment