گِلّی ڈنڈا
منشی پریم چند
ہمارے انگریزی خواں دوست چاہے مانیں یا نہ مانیں میں تو یہی کہوں گا کہ گلی
ڈنڈا سب کھیلوں کا راجا ہے۔ اب بھی جب کبھی لڑکوں کوگلی ڈنڈا کھیلتے دیکھتا
ہوں تو جی لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے کہ ان کے ساتھ جا کر کھیلنے لگوں ۔ نہ لان
(میدان) کی ضرورت ہے نہ شنگارڈ ، نٹ کی نہ بلے کی ۔ مزے سے کسی درخت کی ایک
شاخ کاٹ لی گلی بنائی اور دو آدمی بھی آگئے تو کھیل شروع ہو گیا۔ ولایتی
کھیلوں میں سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ ان کے سامان مہنگے ہوتے ہیں۔ جب تک کم از
کم ایک روپیہ خرچ نہ کیجیے کھلاڑیوں میں شمار نہیں ہوسکتا۔ یہاں گلی ڈنڈا ہے
کہ بغیر ہینگ پھٹکری کے لگے رنگ چوکھا دیتا ہے لیکن ہم انگریزی کھیلوں پر
ایسے دیوانے ہورہے ہیں کہ اپنی سب چیزوں سے ہمیں نفرت سی ہوگئی ہے۔ ہمارے
اسکولوں میں ہر ایک لڑکے سے تین چار روپے سالانہ صرف کھیل کی فیس لی جاتی ہے۔
کسی کو یہ نہیں سوجھتا کہ ہندوستانی کھیل کھلائیں جو بغیر پیسے کوڑی کے کھیلا
جاتا ہے۔ انگریزی کھیل ان کے لیے ہیں جن کے پاس روپیہ ہے۔ بے چارے غریب لڑکوں
کے سر پرفضول خرچیاں کیوں منڈھتے ہو۔ ٹھیک ہے گلی سے آنکھ پھوٹ جانے کا
اندیشہ رہتا ہے تو کیا کرکٹ سے سر پھٹ جانے کا، تلی پھٹ جانے کا ، ٹانگ ٹوٹ
جانے کا خدشہ نہیں رہتا۔ اگر ہمارے ماتھے پر گلی لگ جانے کا داغ آج تک لگا
ہوا ہے تو ہمارے کئی دوست ایسے بھی ہیں جو بلے سے گھائل ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی
رکھتے ہیں۔ خیر یہ تو اپنی اپنی پسند ہے اور بچپن کی یادوں میں گلی ڈنڈا ہی
سب سے شیریں یاد ہے۔ وہ علی الصباح گھر سے نکل جانا، وہ درختوں پر چڑھ کر
ٹہنیاں کاٹنا اور گلی ڈنڈے بنانا، وہ جوش و خروش، وہ لگن، وہ کھلاڑیوں کے
جمگھٹے، وہ پدنا اور پدانا، وہ لڑائی جھگڑے، وہ بے تکلف سادگی، جس میں چھوت
چھات ، غریب امیر کی کوئی تمیز نہ تھی۔ جس میں امیرانہ چونچلوں اور غرور اور
خود نمائی کی گنجائش نہ تھی، اسی وقت بھولے گا جب گھر والے بگڑ رہے ہیں۔ والد
صاحب چوکے پر بیٹھے روٹیوں پر اپنا غصہ اتار رہے ہیں۔ اماں کی دوڑ صرف دروازے
تک ہے لیکن ان کے خیال میں میرا تاریک مستقبل ٹوٹی ہوئی کشتی کی طرح ڈگمگا
رہا ہے اور میں ہوں کہ پدانے میں مست ہوں۔ نہ نہانے کا خیال ہے نہ کھانے کا۔
گلی ہے تو ذرا سی مگر اس میں دنیا بھر کی مٹھاس اور عاشقوں کا لطف بھرا ہوا
ہے۔
میرے ہمجولیوں میں ایک لڑکا گیا نام کا تھا۔ مجھ سے دو تین سال بڑا ہوگا۔ دبلا لمبا بندروں کی سی پھرتی ، بندروں کی سی لمبی لمبی انگلیاں، بندروں کی جھپٹ ۔ گلی کیسی ہی ہو اس طرح جھپٹتا تھا جس طرح چھپکلی کیڑوں پر لپکتی ہے۔ معلوم نہیں اس کے ماں باپ کون تھے، کہاں رہتا تھا، کیا کھاتا تھا، پرتھا ہمارے گلی کلب کا چیمپین ۔ جس کی طرف وہ آ جائے اس کی جیت یقینی تھی ۔ ہم سب اسے دور سے آتا دیکھ کر اس کا استقبال کرتے تھے اور اسے اپنا گوئیاں بنا لیتے تھے۔
ایک دن میں اور گیا دونوں ہی کھیل رہے تھے۔ میں پد رہا تھا وہ پدا رہا تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ پدانے میں ہم دن بھر مست رہ سکتے ہیں پدنا ایک منٹ بھی سہا نہیں جاتا۔ میں نے گلا چھڑانے کے لیے وہ سب چالیں چلیں جو ایسے موقعے پر خلاف قانون ہوتے ہوئے بھی قابل معافی ہیں ۔ لیکن گیا اپنا داؤں لیے بغیر پیچھا نہ چھوڑتا تھا۔ میں گھر کی طرف بھاگا، منت سماجت اور خوشامد کا کوئی اثر نہ ہوا۔ گیا نے مجھے دوڑ کر پکڑ لیا اور ڈنڈا تان کر بولا ” میرا داؤں دے کر جاؤ ۔ پدایا تو بڑا بہادر بن کر، پدنے کے وقت کیوں بھاگتے ہو“
”تم پھر پداؤ تو میں دن بھر پدتا رہوں گا؟“
” ہاں تمھیں دن بھر پدنا پڑے گا۔“
”کھانے جاؤں نہ پینے ؟“
” ہاں میرا داؤں دیے بغیر کہیں نہیں جاسکتے۔“
” میں تمھارا غلام ہوں؟“
”ہاں تم میرے غلام ہو“
” میں گھر جاتا ہوں دیکھوں تم میرا کیا کر لوگے ۔“
”گھر جاؤ گے کیسے، دل لگی ہے۔ داؤں دیا ہے داؤں لیں گے۔ ”
”اچھا کل میں نے تمھیں امرود کھلایا تھا وہ رکھ دو۔“
”وہ تو پیٹ میں چلا گیا۔“
’’نکالو پیٹ سے تم نے کیوں کھایا میرا امرود؟“
”امرود تم نے دیا تھا میں نے کھایا میں تم سے مانگنے گیا تھا؟‘‘
”جب تک میرا امرود نہ دو گے میں داؤں نہ دوں گا۔“
میں سمجھتا تھا انصاف میری طرف ہے آخر میں نے کسی غرض کی وجہ سے ہی امرود کھلایا ہوگا ۔ کون کسی کے ساتھ بے غرضانہ سلوک کرتا ہے۔ بھیک تک تو غرض ہی کے لیے دیتے ہیں۔ جب گیا نے میرا امرود کھایا تو پھر اسے مجھ سے داؤں لینے کا کیا حق حاصل ہے۔ رشوت دے کر تو لوگ خون چھپا جاتے ہیں۔ وہ میرا امرود یوں ہی ہضم کر جائے گا۔ امرود پیسے کے پانچ والے تھے جو گیا کے باپ کو بھی نصیب نہ ہوں گے۔ یہ سراسر بے انصافی تھی۔
گیا نے مجھے اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا ”میرا داؤں دے کر جاؤ ، میں امرود سمرود کچھ نہیں جانتا۔“ٹ
مجھے انصاف کا زور تھا۔ ہاتھ چھڑا کر بھاگنا چاہتا تھا۔ وہ مجھے جانے نہ دیتا تھا۔ میں نے گالی دی۔
اس نے اس سے بھی سخت گالی دی اور گا لی ہی نہیں ایک ڈنڈا بھی جما دیا۔ میں رونے لگا۔
گیا میرے اس ہتھیار کا مقابلہ نہ کر سکا۔ بھاگا، میں نے فوراً آنسو پونچھ ڈالے۔ ڈنڈے کی چوٹ بھول گیا اور ہنستا ہوا گھر پہنچا۔ میں تھانے دار کا لڑکا ایک لونڈے کے ہاتھوں پٹ گیا۔ مجھے اس وقت بھی بے عزتی کا باعث معلوم ہوا لیکن گھر میں کسی سے شکایت نہ کی۔ انھیں دنوں والد صاحب کا وہاں سے تبادلہ ہو گیا ۔ نئی دنیا دیکھنے کی خوشی میں ایسا پھولا کہ اپنے ہمجولیوں سے جدا ہونے کا بالکل افسوس نہ ہوا۔ والد صاحب افسوس کرتے تھے یہ بڑی آمدنی کی جگہ تھی۔ اماں بھی افسوس کرتی تھیں۔ یہاں سب چیزیں سستی تھیں اور محلے کی عورتوں سے لگاؤ سا ہو گیا تھا۔ لیکن میں مارے خوشی کے پھولا نہ سماتا تھا۔ لڑکوں سے شیخی بگھار رہا تھا۔ وہاں ایسے گھر تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ وہاں کے انگریزی اسکولوں میں کوئی ماسٹر اگر لڑکوں کو پیٹے تو عمر قید ہو جائے۔ میرے دوستوں کی حیرت سے پھٹی آنکھیں اور متعجب چہرے صاف بتلا رہے تھے کہ میں ان کی نگاہوں میں کتنا اونچا اٹھ گیا ہوں ۔ بچوں میں جھوٹ کو سچ بنا لینے کی وہ طاقت ہوتی ہے ، جسے ہم، جو سچ کو جھوٹا بنا دیتے ہیں ، نہیں سمجھ سکتے ۔ دوست کہہ رہے تھے تم خوش قسمت ہو بھائی ۔ ہمیں تو اسی گاؤں میں جینا بھی ہے اور مرنا بھی ہے۔
بیس سال گزر گئے ۔ میں نے انجینیری پاس کی ہے اور کسی ضلع کا دورہ کرتے ہوئے اسی قصبے میں پہنچا اور ڈاک بنگلے میں ٹھہرا۔ اس جگہ کو دیکھتے ہی بچپن کی اس قدر دل کش اور شیریں یاد تازہ ہوا ٹھی کہ میں نے چھڑی اٹھائی اور قصبے کی سیر کو نکلا۔ آنکھیں کسی پیارے مسافر کی طرح بچپن کے ان مقامات کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھیں جن کے ساتھ کتنی ہی یادگاریں وابستہ تھیں لیکن اس مانوس نام کے علاوہ وہاں کوئی شناسا نہیں ملا۔ جہاں کھنڈر تھا، وہاں پکے مکانات کھڑے تھے۔ جہاں برگد کا ایک پرانا درخت تھا وہاں اب ایک خوبصورت باغیچہ تھا۔ اس جگہ کی کایا پلٹ ہو گئی تھی۔ اگر اس کے نام و نشان کا علم نہ ہوتا تو میں اسے پہچان بھی نہ سکتا تھا۔ وہ پرانی یادگاریں باہیں پھیلا پھیلا کر اپنے پرانے دوستوں کے گلے لپٹنے کے لیے بے قرار ہورہی تھیں مگر وہ دنیا بدل گئی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ اس زمین سے لپٹ کر روؤں اور کہوں کہ تم مجھے بھول گئیں لیکن میرے دل میں تمھاری یاد تازہ ہے۔
اچانک ایک کھلی جگہ میں نے دو تین لڑکوں کو گلی ڈنڈا کھیلتے دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے میں اپنے آپ کو بالکل بھول گیا کہ میں ایک اونچا افسر ہوں، صاحبی ٹھاٹھ ہیں، رعب اور اختیار کے لباس میں ہوں ۔ جا کر ایک لڑکے سے پوچھا ”کیوں بیٹے یہاں کوئی گیا نام کا آدمی رہتا ہے؟“
ایک لڑکے نے گلی ڈنڈا سمیٹ کر سہمے ہوئے لہجے میں کہا ”ہاں ہے تو۔“
لڑکا دوڑا ہوا گیا اور جلد ایک پانچ ہاتھ کے کالے دیو کو ساتھ لیے آتا ہوا دکھائی دیا۔ میں نے دور ہی سے پہچان لیا۔ اس کی طرف لپکنا چاہتا ہی تھا کہ اس کے گلے سے لپٹ جاؤں مگر کچھ سوچ کر رہ گیا۔
بولا ”کہو کیا مجھے پہچانتے ہو؟“
گیا نے جھک کر سلام کیا۔ ”ہاں مالک، بھلا پہچانوں گا کیوں نہیں،آپ مزے میں رہے؟“
”بہت مزے میں تم اپنی کہو؟“
” ڈپٹی صاحب کا سائیس ہوں“
”ماتا دین درگا دونوں ڈاکیے ہو گئے ہیں اور آپ؟“
”میں ضلع کا انجینیر ہوں“
”سرکار تو پہلے ہی بڑے جہین(ذہین)تھے۔“
”اب بھی گلی ڈنڈا کھیلتے ہو؟“
میں نے گیا کی طرف سوال کی آنکھوں سے دیکھا۔
”گلی ڈنڈا کیا کھیلوں گا سرکار۔ اب تو پیٹ کے دھندے ہی سے چھٹی نہیں ملتی۔“
”آؤ آج ہم تم کھیلیں۔تم پدانا ہم پدیں گے تمھارا ایک داؤں ہمارے اوپر ہے وہ آج لے لو“
میرے ہمجولیوں میں ایک لڑکا گیا نام کا تھا۔ مجھ سے دو تین سال بڑا ہوگا۔ دبلا لمبا بندروں کی سی پھرتی ، بندروں کی سی لمبی لمبی انگلیاں، بندروں کی جھپٹ ۔ گلی کیسی ہی ہو اس طرح جھپٹتا تھا جس طرح چھپکلی کیڑوں پر لپکتی ہے۔ معلوم نہیں اس کے ماں باپ کون تھے، کہاں رہتا تھا، کیا کھاتا تھا، پرتھا ہمارے گلی کلب کا چیمپین ۔ جس کی طرف وہ آ جائے اس کی جیت یقینی تھی ۔ ہم سب اسے دور سے آتا دیکھ کر اس کا استقبال کرتے تھے اور اسے اپنا گوئیاں بنا لیتے تھے۔
ایک دن میں اور گیا دونوں ہی کھیل رہے تھے۔ میں پد رہا تھا وہ پدا رہا تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ پدانے میں ہم دن بھر مست رہ سکتے ہیں پدنا ایک منٹ بھی سہا نہیں جاتا۔ میں نے گلا چھڑانے کے لیے وہ سب چالیں چلیں جو ایسے موقعے پر خلاف قانون ہوتے ہوئے بھی قابل معافی ہیں ۔ لیکن گیا اپنا داؤں لیے بغیر پیچھا نہ چھوڑتا تھا۔ میں گھر کی طرف بھاگا، منت سماجت اور خوشامد کا کوئی اثر نہ ہوا۔ گیا نے مجھے دوڑ کر پکڑ لیا اور ڈنڈا تان کر بولا ” میرا داؤں دے کر جاؤ ۔ پدایا تو بڑا بہادر بن کر، پدنے کے وقت کیوں بھاگتے ہو“
”تم پھر پداؤ تو میں دن بھر پدتا رہوں گا؟“
” ہاں تمھیں دن بھر پدنا پڑے گا۔“
”کھانے جاؤں نہ پینے ؟“
” ہاں میرا داؤں دیے بغیر کہیں نہیں جاسکتے۔“
” میں تمھارا غلام ہوں؟“
”ہاں تم میرے غلام ہو“
” میں گھر جاتا ہوں دیکھوں تم میرا کیا کر لوگے ۔“
”گھر جاؤ گے کیسے، دل لگی ہے۔ داؤں دیا ہے داؤں لیں گے۔ ”
”اچھا کل میں نے تمھیں امرود کھلایا تھا وہ رکھ دو۔“
”وہ تو پیٹ میں چلا گیا۔“
’’نکالو پیٹ سے تم نے کیوں کھایا میرا امرود؟“
”امرود تم نے دیا تھا میں نے کھایا میں تم سے مانگنے گیا تھا؟‘‘
”جب تک میرا امرود نہ دو گے میں داؤں نہ دوں گا۔“
میں سمجھتا تھا انصاف میری طرف ہے آخر میں نے کسی غرض کی وجہ سے ہی امرود کھلایا ہوگا ۔ کون کسی کے ساتھ بے غرضانہ سلوک کرتا ہے۔ بھیک تک تو غرض ہی کے لیے دیتے ہیں۔ جب گیا نے میرا امرود کھایا تو پھر اسے مجھ سے داؤں لینے کا کیا حق حاصل ہے۔ رشوت دے کر تو لوگ خون چھپا جاتے ہیں۔ وہ میرا امرود یوں ہی ہضم کر جائے گا۔ امرود پیسے کے پانچ والے تھے جو گیا کے باپ کو بھی نصیب نہ ہوں گے۔ یہ سراسر بے انصافی تھی۔
گیا نے مجھے اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا ”میرا داؤں دے کر جاؤ ، میں امرود سمرود کچھ نہیں جانتا۔“ٹ
مجھے انصاف کا زور تھا۔ ہاتھ چھڑا کر بھاگنا چاہتا تھا۔ وہ مجھے جانے نہ دیتا تھا۔ میں نے گالی دی۔
اس نے اس سے بھی سخت گالی دی اور گا لی ہی نہیں ایک ڈنڈا بھی جما دیا۔ میں رونے لگا۔
گیا میرے اس ہتھیار کا مقابلہ نہ کر سکا۔ بھاگا، میں نے فوراً آنسو پونچھ ڈالے۔ ڈنڈے کی چوٹ بھول گیا اور ہنستا ہوا گھر پہنچا۔ میں تھانے دار کا لڑکا ایک لونڈے کے ہاتھوں پٹ گیا۔ مجھے اس وقت بھی بے عزتی کا باعث معلوم ہوا لیکن گھر میں کسی سے شکایت نہ کی۔ انھیں دنوں والد صاحب کا وہاں سے تبادلہ ہو گیا ۔ نئی دنیا دیکھنے کی خوشی میں ایسا پھولا کہ اپنے ہمجولیوں سے جدا ہونے کا بالکل افسوس نہ ہوا۔ والد صاحب افسوس کرتے تھے یہ بڑی آمدنی کی جگہ تھی۔ اماں بھی افسوس کرتی تھیں۔ یہاں سب چیزیں سستی تھیں اور محلے کی عورتوں سے لگاؤ سا ہو گیا تھا۔ لیکن میں مارے خوشی کے پھولا نہ سماتا تھا۔ لڑکوں سے شیخی بگھار رہا تھا۔ وہاں ایسے گھر تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ وہاں کے انگریزی اسکولوں میں کوئی ماسٹر اگر لڑکوں کو پیٹے تو عمر قید ہو جائے۔ میرے دوستوں کی حیرت سے پھٹی آنکھیں اور متعجب چہرے صاف بتلا رہے تھے کہ میں ان کی نگاہوں میں کتنا اونچا اٹھ گیا ہوں ۔ بچوں میں جھوٹ کو سچ بنا لینے کی وہ طاقت ہوتی ہے ، جسے ہم، جو سچ کو جھوٹا بنا دیتے ہیں ، نہیں سمجھ سکتے ۔ دوست کہہ رہے تھے تم خوش قسمت ہو بھائی ۔ ہمیں تو اسی گاؤں میں جینا بھی ہے اور مرنا بھی ہے۔
بیس سال گزر گئے ۔ میں نے انجینیری پاس کی ہے اور کسی ضلع کا دورہ کرتے ہوئے اسی قصبے میں پہنچا اور ڈاک بنگلے میں ٹھہرا۔ اس جگہ کو دیکھتے ہی بچپن کی اس قدر دل کش اور شیریں یاد تازہ ہوا ٹھی کہ میں نے چھڑی اٹھائی اور قصبے کی سیر کو نکلا۔ آنکھیں کسی پیارے مسافر کی طرح بچپن کے ان مقامات کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھیں جن کے ساتھ کتنی ہی یادگاریں وابستہ تھیں لیکن اس مانوس نام کے علاوہ وہاں کوئی شناسا نہیں ملا۔ جہاں کھنڈر تھا، وہاں پکے مکانات کھڑے تھے۔ جہاں برگد کا ایک پرانا درخت تھا وہاں اب ایک خوبصورت باغیچہ تھا۔ اس جگہ کی کایا پلٹ ہو گئی تھی۔ اگر اس کے نام و نشان کا علم نہ ہوتا تو میں اسے پہچان بھی نہ سکتا تھا۔ وہ پرانی یادگاریں باہیں پھیلا پھیلا کر اپنے پرانے دوستوں کے گلے لپٹنے کے لیے بے قرار ہورہی تھیں مگر وہ دنیا بدل گئی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ اس زمین سے لپٹ کر روؤں اور کہوں کہ تم مجھے بھول گئیں لیکن میرے دل میں تمھاری یاد تازہ ہے۔
اچانک ایک کھلی جگہ میں نے دو تین لڑکوں کو گلی ڈنڈا کھیلتے دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے میں اپنے آپ کو بالکل بھول گیا کہ میں ایک اونچا افسر ہوں، صاحبی ٹھاٹھ ہیں، رعب اور اختیار کے لباس میں ہوں ۔ جا کر ایک لڑکے سے پوچھا ”کیوں بیٹے یہاں کوئی گیا نام کا آدمی رہتا ہے؟“
ایک لڑکے نے گلی ڈنڈا سمیٹ کر سہمے ہوئے لہجے میں کہا ”ہاں ہے تو۔“
لڑکا دوڑا ہوا گیا اور جلد ایک پانچ ہاتھ کے کالے دیو کو ساتھ لیے آتا ہوا دکھائی دیا۔ میں نے دور ہی سے پہچان لیا۔ اس کی طرف لپکنا چاہتا ہی تھا کہ اس کے گلے سے لپٹ جاؤں مگر کچھ سوچ کر رہ گیا۔
بولا ”کہو کیا مجھے پہچانتے ہو؟“
گیا نے جھک کر سلام کیا۔ ”ہاں مالک، بھلا پہچانوں گا کیوں نہیں،آپ مزے میں رہے؟“
”بہت مزے میں تم اپنی کہو؟“
” ڈپٹی صاحب کا سائیس ہوں“
”ماتا دین درگا دونوں ڈاکیے ہو گئے ہیں اور آپ؟“
”میں ضلع کا انجینیر ہوں“
”سرکار تو پہلے ہی بڑے جہین(ذہین)تھے۔“
”اب بھی گلی ڈنڈا کھیلتے ہو؟“
میں نے گیا کی طرف سوال کی آنکھوں سے دیکھا۔
”گلی ڈنڈا کیا کھیلوں گا سرکار۔ اب تو پیٹ کے دھندے ہی سے چھٹی نہیں ملتی۔“
”آؤ آج ہم تم کھیلیں۔تم پدانا ہم پدیں گے تمھارا ایک داؤں ہمارے اوپر ہے وہ آج لے لو“
گیا بڑی مشکل سے راضی ہوا۔ وہ ٹہرا ٹکے کا مزدور، میں ایک بڑا آفیسر۔ میرا اور
اس کا کیا جوڑ۔ بے چارہ جھینپ رہا تھا۔ لیکن مجھے بھی کچھ کم جھینپ نہ تھی۔ اس
لیے نہیں کہ میں گیا کے ساتھ کھیلنے جا رہا تھا بلکہ لوگ اس کھیل کو عجوبہ سمجھ
کر اس کا تماشا بنا لیں گے اور اچھی خاصی بھیڑ لگ جائے گی۔ اس بھیڑ میں وہ لطف
کہاں رہے گا لیکن کھیلے بغیر تو رہا نہیں جاتا تھا۔ آخر فیصلہ ہوا دونوں بستی
سے دور تنہائی میں جاکر کھیلیں۔ وہاں کون دیکھنے والا بیٹھا ہوگا۔ مزے سے
کھیلیں گے اور بچپن کی مٹھائی کو خوب مزے لے لے کر کھائیں گے۔ میں گیا کو لے کر
ڈاک بنگلے پر آیا اور موٹر میں بیٹھ کر دونوں میدان کی طرف چلے اور ساتھ ہی ایک
کلہاڑی لے لی۔
میں متانت کے ساتھ یہ سب کچھ کر رہا تھا مگر گیا ابھی تک مذاق سمجھ رہا
تھا۔اس کے چہرے پر خوش اور ولولے کا کوئی نشان نہیں تھا۔ شاید ہم دونوں میں
جو فرق ہو گیا تھا وہ اسے سوچنے میں محو تھا۔ میں نے پوچھا” تمھیں بھی ہماری
یاد آتی تھی، سچ کہنا؟
گیا جھینپتا ہوا بولا”میں آپ کو یاد کر کے کیا کرتا حضور!کس لایق ہوں-قسمت میں کچھ دن آپ کے ساتھ کھیلنا لکھا تھا نہیں تو میری کیا گنتی۔“
”وہ ڈنڈا جو تان کر جمایا تھا یاد ہے نا؟“
گیا نے شرماتے ہوئے کہا ”وہ لڑکپن تھا سرکار!اس کی یاد نہ دلاو۔“
واہ!وہ میرے ان دنوں کی سب سے رسیلی یاد ہے۔ تمھارے اس ڈنڈے میں جو رس تھا وہ اب نہ عزت اور بڑائی میں پاتا ہوں،نہ دولت میں۔کچھ ایسی مٹھاس تھی اس میں کہ آج تک اس سے من میٹھا ہوتا رہتا ہے۔
اتنی دیر میں ہم بستی سے کوئی تین میل نکل آئے تھے۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ مغرب کی طرف کوسوں بھیم تال پھیلا ہوا تھا جہاں آ کر ہم کسی وقت کنول کے پھول توڑنے جاتے تھے اور اس کے جھمکے بنا کر کانوں میں ڈال لیتے تھے۔ جون کی شام کیسر میں ڈوبی چلی آرہی تھی،میں لپک کر درخت پر چڑھ گیا اور ایک شاخ کاٹ لایا۔ جھٹ پٹ گلی ڈنڈا بن گیا۔ کھیل شروع ہو گیا۔ میں نے راب میں گلی رکھ کر اچھالی اور گلی گیا کے سامنے سے نکل گئی۔
اس نے ہاتھ لپکایا۔ جیسے مچھلی پکڑ رہا ہو۔ گلی اس کے پیچھے جا کر گری۔ یہ وہی گیا تھا جس کے ہاتھوں میں گلی آپ ہی آپ آکر بیٹھ جاتی تھی۔ وہ داہنے بائیں ہو،گلی اس کی ہتھیلی میں پہنچتی تھی۔ جیسے گلیوں پر جادو کر کے اس نے بس میں کر لیا ہو۔ نئی گلی ، پرانی گلی ، چھوٹی گلی ، بڑی گلی ، نوک دار گلی ۔ سب ہی اس سے مل جاتی تھیں گویا اس کے ہاتھوں میں مقناطیسی طاقت تھی جو گلیوں کو کھینچ لیتی ہے لیکن آج گلیوں کو اس سے وہ محبت نہیں رہی ۔ پھر تو میں نے اس کو پدانا شروع کیا۔ میں طرح طرح کے فریب کر رہا تھا۔ مشق کی کمی بے ایمانی سے پوری کر رہا تھا۔ داؤں پورا ہونے پر بھی ڈنڈا کھیلے جاتا تھا۔ حالانکہ قاعدے کے مطابق گیا کی باری آنی چاہیے تھی۔ گلی پر جب ہلکی چوٹ پڑتی اور وہ ذراسی دور گر پڑتی تو لپک کر خود ہی اٹھا لاتا اور دو بارہ ٹل لگاتا۔ گیا یہ ساری بے قاعدگیاں دیکھ رہا تھا اور کچھ نہ بولتا تھا۔ گویا اسے تمام قاعدے قوانین بھول گئے ہوں ۔ اس کا نشانہ کتنا بے خطا تھا۔ گلی اس سے نکل کر ٹن سے ڈنڈے پر آ کر لگتی تھی۔ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر اس کا کام تھا ڈنڈے سے ٹکرا جانا ۔ لیکن آج وہ گلی ڈنڈے سے لگتی ہی نہیں ہے۔ کبھی داہنے جاتی ہے کبھی بائیں کبھی آگے کبھی پیچھے۔
آدھ گھنٹہ پدانے کے بعد گلی ایک بار ڈنڈے میں آ لگی ۔ میں نے دھاندلی کی ’’ گلی ڈنڈے کے بالکل پاس سے گئی ہے مگر لگی نہیں ۔
گیانے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔’’ نہیں لگی ہوگی ۔ ڈنڈے میں لگتی تو کیا میں بے ایمانی کرتا‘‘ نہیں بھیا! بھلاتم بے ایمانی کروگے؟
بچپن میں مجال تھی میں ایسا گھپلا کر کے جیتا بچتا۔ یہ ہی گیا میری گردن پر چڑھ بیٹھتا۔ لیکن آج میں اسے کتنی آسانی سے دھوکا دیے چلا جاتا تھا۔ گدھا ہے ساری باتیں بھول گیا۔
اچانک گلی ڈنڈے میں لگی اور اتنے زور سے لگی جیسے بندوق چھوٹی ہو۔ اس ثبوت کے مقابل مجھے کسی طرح کا فریب چلنے کا حوصلہ اس وقت بھی نہ ہو سکا۔ لیکن کیوں نہ ایک بار سچ کو جھوٹ بنانے کی کوشش کروں ، میرا حرج ہی کیا ہے۔ مان گیا تو واہ واہ ، ور نہ دو چار ہاتھ تو پدنا ہی پڑے گا۔ اندھیرے کا بہانہ کر کے گلا چھڑالوں گا پھر کون داؤں دینے آتا ہے۔ گیانے فاتحانہ انداز سے کہا لگ گئی ٹن سے بولی “
میں نے انجان بننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا
تم نے لگتے دیکھا، میں نے تو نہیں دیکھا۔
" ٹن سے بولی ہے سرکار ‘‘
"اور جو کسی اینٹ سے لگ گئی ہو".
میرے منہ سے یہ فقرہ کیسے نکل گیا اس پر مجھے خود حیرت ہے۔ اس سچائی کو جھٹلا نا ویسا ہی تھا جیسے دن کو رات کہنا۔ ہم دونوں نے گلی کو ڈنڈے میں زور سے لگتے دیکھا لیکن گیا نے میرا کہنا مان لیا۔
”ہاں سرکار کسی اینٹ پر لگی ہوگی ڈنڈے میں لگتی تو اتنی آواز نہ آتی۔"
میں نے پھر پدانا شروع کیا۔ لیکن اس قدر صاف اور صریح دھوکا دینے کے بعد مجھے گیا کی سادگی پر رحم آنے لگا۔ اس لیے جب تیسری بار گلی ڈنڈے پر لگی تو میں نے بڑی فراخدلی کے ساتھ داؤں دینا طے کر لیا۔
گیا نے کہا اب تو اندھیرا ہو گیا ہے بھیا کل پر رکھو۔"
میں نے سوچا کل بہت سا وقت ہوگا۔ یہ نہ جانے کتنی دیر پدائے اس لیے اس وقت معاملہ صاف کر لینا اچھا ہوگا ’’نہیں نہیں بہت اجالا ہے تم اپنا داؤں لے لو۔"
"گلی سوجھے گی نہیں .“
کچھ پرواہ نہیں “
گیانے پدا نا شروع کیا۔ مگر اب بالکل مشق نہیں تھی۔ اس نے دوبارہ ٹل لگانے کا ارادہ کیا لیکن دونوں ہی بار وہ چوک گیا۔ ایک منٹ سے کم میں وہ اپنا داؤں پورا کر چکا تھا۔ بے چارہ گھنٹہ بھر پدا لیکن ایک منٹ میں اپنا داؤں کھو بیٹھا۔ میں نے اپنے دل کی وسعت کا ثبوت دیا ایک داؤں اور لے لو تم پہلے ہی ہاتھ میں ہار گئے ‘‘
"نہیں بھیا اب اندھیرا ہو گیا ہے"۔
" تمھاری مشق چھوٹ گئی کیا. کبھی کھیلتے نہیں ہو؟"
"کھیلنے کا وقت ہی نہیں ملتا بھیا‘‘
ہم دونوں موٹر میں جا بیٹھے اور چراغ جلتے جلتے پڑاؤ پر جا پہنچے۔ گیا چلتے چلتے بولا۔ ” کل یہاں گلی ڈنڈا ہو گا ۔ سب ہی پرانے کھلاڑی کھیلیں گے ۔ تم بھی آؤ گے جب ھیں فرصت ہو۔ سب ہی کھلاڑیوں کو بلا لوں ‘‘
میں نے شام کا وقت دیا اور دوسرے دن میچ دیکھنے کو گیا۔ کوئی دس آدمیوں کی منڈ لی تھی ۔ کئی میرے لڑکپن کے ساتھی نکلے مگر بیشتر نوجوان تھے جنہیں میں پہچان نہ سکا۔ کھیل شروع ہوا۔ میں موٹر پر بیٹھے بیٹھے تماشا دیکھنے لگا۔ آج گیا کا کھیل اور اس کی کرامت دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ وٹل لگاتا تو گلی آسمان سے باتیں کرتی ۔ کل کی سی وہ جھجھک ، وہ ہچکچاہٹ ، وہ بے دلی آج نہ تھی۔ لڑکپن کی جو بات تھی آج اس نے کمال کی عروج تک پہنچا دی تھی۔ کہیں کل اس نے مجھے اس طرح پدایا ہوتا تو میں ضرور رونےلگتا۔ اس کے ڈنڈے کی چوٹ کھا کر گلی دو سو گز کی خبر لاتی تھی۔
پدنے والوں میں ایک نوجوان نے کچھ بدعنوانی کی۔ اس کا دعوی تھا کہ میں نے گلی دبوچ لی ہے۔ گیا کا کہنا تھا کہ اچھلی ہے۔ اس پر دونوں میں تال ٹھونکنے کی نوبت آئی ۔ نوجوان دب گیا۔ گیا کا تمتمایا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ ڈر گیا۔ میں کھیل میں نہ تھا مگر دوسروں کے اس کھیل میں مجھے وہ ہی لڑ کپن کا لطف آ رہا تھا جب ہم سب کچھ بھول کر کھیل میں مست ہو جاتے تھے۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ گیا کل میرے ساتھ کھیل نہیں بلکہ کھیلنے کا بہانہ کیا۔ اس نے مجھے رحم کے قابل سمجھا۔ میں نے دھاندلی کی ، بے ایمانیاں کیں اسے ذرا بھی غصہ نہ آیا۔ اس لیے کہ وہ کھیل نہ رہا تھا مجھے کھلا رہا تھا۔ میرا جی دیکھ رہا تھا ۔ وہ پدا کر میرا کچومر نکالنا نہیں چاہتا تھا۔ اب میں افسر ہوں ۔ یہ افسری میرے اور اس کے درمیان ایک دیوار بن گئی ہے۔ میں اب اس کا لحاظ پا سکتا ہوں، ادب پاسکتا ہوں ، لیکن اس کا ہمجولی نہیں بن سکتا۔ لڑکپن تھا تب میں اس کا ساتھی تھا۔ ہم میں کوئی بھید نہ تھا۔ یہ عہدہ پا کر اب میں اس کے رحم کے قابل ہوں اور مجھے اب وہ اپنا جوڑ نہیں سمجھتا۔ وہ بڑا ہو گیا ہے، میں چھوٹا ہو گیا ہوں۔
گیا جھینپتا ہوا بولا”میں آپ کو یاد کر کے کیا کرتا حضور!کس لایق ہوں-قسمت میں کچھ دن آپ کے ساتھ کھیلنا لکھا تھا نہیں تو میری کیا گنتی۔“
”وہ ڈنڈا جو تان کر جمایا تھا یاد ہے نا؟“
گیا نے شرماتے ہوئے کہا ”وہ لڑکپن تھا سرکار!اس کی یاد نہ دلاو۔“
واہ!وہ میرے ان دنوں کی سب سے رسیلی یاد ہے۔ تمھارے اس ڈنڈے میں جو رس تھا وہ اب نہ عزت اور بڑائی میں پاتا ہوں،نہ دولت میں۔کچھ ایسی مٹھاس تھی اس میں کہ آج تک اس سے من میٹھا ہوتا رہتا ہے۔
اتنی دیر میں ہم بستی سے کوئی تین میل نکل آئے تھے۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ مغرب کی طرف کوسوں بھیم تال پھیلا ہوا تھا جہاں آ کر ہم کسی وقت کنول کے پھول توڑنے جاتے تھے اور اس کے جھمکے بنا کر کانوں میں ڈال لیتے تھے۔ جون کی شام کیسر میں ڈوبی چلی آرہی تھی،میں لپک کر درخت پر چڑھ گیا اور ایک شاخ کاٹ لایا۔ جھٹ پٹ گلی ڈنڈا بن گیا۔ کھیل شروع ہو گیا۔ میں نے راب میں گلی رکھ کر اچھالی اور گلی گیا کے سامنے سے نکل گئی۔
اس نے ہاتھ لپکایا۔ جیسے مچھلی پکڑ رہا ہو۔ گلی اس کے پیچھے جا کر گری۔ یہ وہی گیا تھا جس کے ہاتھوں میں گلی آپ ہی آپ آکر بیٹھ جاتی تھی۔ وہ داہنے بائیں ہو،گلی اس کی ہتھیلی میں پہنچتی تھی۔ جیسے گلیوں پر جادو کر کے اس نے بس میں کر لیا ہو۔ نئی گلی ، پرانی گلی ، چھوٹی گلی ، بڑی گلی ، نوک دار گلی ۔ سب ہی اس سے مل جاتی تھیں گویا اس کے ہاتھوں میں مقناطیسی طاقت تھی جو گلیوں کو کھینچ لیتی ہے لیکن آج گلیوں کو اس سے وہ محبت نہیں رہی ۔ پھر تو میں نے اس کو پدانا شروع کیا۔ میں طرح طرح کے فریب کر رہا تھا۔ مشق کی کمی بے ایمانی سے پوری کر رہا تھا۔ داؤں پورا ہونے پر بھی ڈنڈا کھیلے جاتا تھا۔ حالانکہ قاعدے کے مطابق گیا کی باری آنی چاہیے تھی۔ گلی پر جب ہلکی چوٹ پڑتی اور وہ ذراسی دور گر پڑتی تو لپک کر خود ہی اٹھا لاتا اور دو بارہ ٹل لگاتا۔ گیا یہ ساری بے قاعدگیاں دیکھ رہا تھا اور کچھ نہ بولتا تھا۔ گویا اسے تمام قاعدے قوانین بھول گئے ہوں ۔ اس کا نشانہ کتنا بے خطا تھا۔ گلی اس سے نکل کر ٹن سے ڈنڈے پر آ کر لگتی تھی۔ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر اس کا کام تھا ڈنڈے سے ٹکرا جانا ۔ لیکن آج وہ گلی ڈنڈے سے لگتی ہی نہیں ہے۔ کبھی داہنے جاتی ہے کبھی بائیں کبھی آگے کبھی پیچھے۔
آدھ گھنٹہ پدانے کے بعد گلی ایک بار ڈنڈے میں آ لگی ۔ میں نے دھاندلی کی ’’ گلی ڈنڈے کے بالکل پاس سے گئی ہے مگر لگی نہیں ۔
گیانے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔’’ نہیں لگی ہوگی ۔ ڈنڈے میں لگتی تو کیا میں بے ایمانی کرتا‘‘ نہیں بھیا! بھلاتم بے ایمانی کروگے؟
بچپن میں مجال تھی میں ایسا گھپلا کر کے جیتا بچتا۔ یہ ہی گیا میری گردن پر چڑھ بیٹھتا۔ لیکن آج میں اسے کتنی آسانی سے دھوکا دیے چلا جاتا تھا۔ گدھا ہے ساری باتیں بھول گیا۔
اچانک گلی ڈنڈے میں لگی اور اتنے زور سے لگی جیسے بندوق چھوٹی ہو۔ اس ثبوت کے مقابل مجھے کسی طرح کا فریب چلنے کا حوصلہ اس وقت بھی نہ ہو سکا۔ لیکن کیوں نہ ایک بار سچ کو جھوٹ بنانے کی کوشش کروں ، میرا حرج ہی کیا ہے۔ مان گیا تو واہ واہ ، ور نہ دو چار ہاتھ تو پدنا ہی پڑے گا۔ اندھیرے کا بہانہ کر کے گلا چھڑالوں گا پھر کون داؤں دینے آتا ہے۔ گیانے فاتحانہ انداز سے کہا لگ گئی ٹن سے بولی “
میں نے انجان بننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا
تم نے لگتے دیکھا، میں نے تو نہیں دیکھا۔
" ٹن سے بولی ہے سرکار ‘‘
"اور جو کسی اینٹ سے لگ گئی ہو".
میرے منہ سے یہ فقرہ کیسے نکل گیا اس پر مجھے خود حیرت ہے۔ اس سچائی کو جھٹلا نا ویسا ہی تھا جیسے دن کو رات کہنا۔ ہم دونوں نے گلی کو ڈنڈے میں زور سے لگتے دیکھا لیکن گیا نے میرا کہنا مان لیا۔
”ہاں سرکار کسی اینٹ پر لگی ہوگی ڈنڈے میں لگتی تو اتنی آواز نہ آتی۔"
میں نے پھر پدانا شروع کیا۔ لیکن اس قدر صاف اور صریح دھوکا دینے کے بعد مجھے گیا کی سادگی پر رحم آنے لگا۔ اس لیے جب تیسری بار گلی ڈنڈے پر لگی تو میں نے بڑی فراخدلی کے ساتھ داؤں دینا طے کر لیا۔
گیا نے کہا اب تو اندھیرا ہو گیا ہے بھیا کل پر رکھو۔"
میں نے سوچا کل بہت سا وقت ہوگا۔ یہ نہ جانے کتنی دیر پدائے اس لیے اس وقت معاملہ صاف کر لینا اچھا ہوگا ’’نہیں نہیں بہت اجالا ہے تم اپنا داؤں لے لو۔"
"گلی سوجھے گی نہیں .“
کچھ پرواہ نہیں “
گیانے پدا نا شروع کیا۔ مگر اب بالکل مشق نہیں تھی۔ اس نے دوبارہ ٹل لگانے کا ارادہ کیا لیکن دونوں ہی بار وہ چوک گیا۔ ایک منٹ سے کم میں وہ اپنا داؤں پورا کر چکا تھا۔ بے چارہ گھنٹہ بھر پدا لیکن ایک منٹ میں اپنا داؤں کھو بیٹھا۔ میں نے اپنے دل کی وسعت کا ثبوت دیا ایک داؤں اور لے لو تم پہلے ہی ہاتھ میں ہار گئے ‘‘
"نہیں بھیا اب اندھیرا ہو گیا ہے"۔
" تمھاری مشق چھوٹ گئی کیا. کبھی کھیلتے نہیں ہو؟"
"کھیلنے کا وقت ہی نہیں ملتا بھیا‘‘
ہم دونوں موٹر میں جا بیٹھے اور چراغ جلتے جلتے پڑاؤ پر جا پہنچے۔ گیا چلتے چلتے بولا۔ ” کل یہاں گلی ڈنڈا ہو گا ۔ سب ہی پرانے کھلاڑی کھیلیں گے ۔ تم بھی آؤ گے جب ھیں فرصت ہو۔ سب ہی کھلاڑیوں کو بلا لوں ‘‘
میں نے شام کا وقت دیا اور دوسرے دن میچ دیکھنے کو گیا۔ کوئی دس آدمیوں کی منڈ لی تھی ۔ کئی میرے لڑکپن کے ساتھی نکلے مگر بیشتر نوجوان تھے جنہیں میں پہچان نہ سکا۔ کھیل شروع ہوا۔ میں موٹر پر بیٹھے بیٹھے تماشا دیکھنے لگا۔ آج گیا کا کھیل اور اس کی کرامت دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ وٹل لگاتا تو گلی آسمان سے باتیں کرتی ۔ کل کی سی وہ جھجھک ، وہ ہچکچاہٹ ، وہ بے دلی آج نہ تھی۔ لڑکپن کی جو بات تھی آج اس نے کمال کی عروج تک پہنچا دی تھی۔ کہیں کل اس نے مجھے اس طرح پدایا ہوتا تو میں ضرور رونےلگتا۔ اس کے ڈنڈے کی چوٹ کھا کر گلی دو سو گز کی خبر لاتی تھی۔
پدنے والوں میں ایک نوجوان نے کچھ بدعنوانی کی۔ اس کا دعوی تھا کہ میں نے گلی دبوچ لی ہے۔ گیا کا کہنا تھا کہ اچھلی ہے۔ اس پر دونوں میں تال ٹھونکنے کی نوبت آئی ۔ نوجوان دب گیا۔ گیا کا تمتمایا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ ڈر گیا۔ میں کھیل میں نہ تھا مگر دوسروں کے اس کھیل میں مجھے وہ ہی لڑ کپن کا لطف آ رہا تھا جب ہم سب کچھ بھول کر کھیل میں مست ہو جاتے تھے۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ گیا کل میرے ساتھ کھیل نہیں بلکہ کھیلنے کا بہانہ کیا۔ اس نے مجھے رحم کے قابل سمجھا۔ میں نے دھاندلی کی ، بے ایمانیاں کیں اسے ذرا بھی غصہ نہ آیا۔ اس لیے کہ وہ کھیل نہ رہا تھا مجھے کھلا رہا تھا۔ میرا جی دیکھ رہا تھا ۔ وہ پدا کر میرا کچومر نکالنا نہیں چاہتا تھا۔ اب میں افسر ہوں ۔ یہ افسری میرے اور اس کے درمیان ایک دیوار بن گئی ہے۔ میں اب اس کا لحاظ پا سکتا ہوں، ادب پاسکتا ہوں ، لیکن اس کا ہمجولی نہیں بن سکتا۔ لڑکپن تھا تب میں اس کا ساتھی تھا۔ ہم میں کوئی بھید نہ تھا۔ یہ عہدہ پا کر اب میں اس کے رحم کے قابل ہوں اور مجھے اب وہ اپنا جوڑ نہیں سمجھتا۔ وہ بڑا ہو گیا ہے، میں چھوٹا ہو گیا ہوں۔
منشی پریم چند
(1880-1936)
پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے تھا۔ وہ بنارس کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں
پیدا ہوئے ۔ ان کے والد ڈاک خانے میں ملازم تھے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی
۔ اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم کے بعد انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ پرائمری
اسکول میں ٹیچر ہو گئے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔
پریم چند کو طالب علمی کے زمانے سے ہی مضامین لکھنے کا شوق تھا۔ "اسرار
معابد‘‘ کے نام سے ان کا پہلا ناول بنارس کے ایک رسالے میں شائع ہونا شروع
ہوا۔ بعد میں وہ رسالہ "زمانہ" کے لیے پابندی سے مضامین اور افسانے لکھنے
لگے۔ 1908 میں ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعه "سوز وطن“ کے نام سے شائع ہوا
جسے حکومت نے ضبط کر لیا۔ اب وہ پریم چند کے قلمی نام سے لکھنے لگے۔ ملک میں
آزادی کی تحریک پھیل رہی تھی۔ پریم چند بھی گاندھی جی کی شخصیت سے متاثر
ہوئے۔ 1921 میں سرکاری ملازمت سے استعفا دے دیا۔ وہ قلم کے سپاہی بن گئے اور
اپنی تحریروں کو آزادی اور قومی تعمیر کے مقاصد کے لیے وقف کردیا۔
پریم چند کے افسانے اور ناول اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ انھوں نے ادب کو
مقامی زندگی خاص طور پر دیہاتوں کے مسائل کا ترجمان بنا دیا۔ پریم چند کی
حقیقت نگاری زندگی کے تجربات و مشاہدات کا نتیجہ ہے۔ اسی خصوصیت نے انھیں
اپنے ہم عصروں سے ممتاز کر دیا۔ ان کے افسانے قومی، سیاسی اور سماجی رجحانات
کے آئینہ دار ہیں۔
پریم چند نے ناول اور افسانوں کے علاوہ ڈرامے اور مضامین بھی لکھے۔ ان کے
افسانوں کے نمائندہ مجموعے "پریم پچپیسی‘‘، پریم چالیسا‘‘ ’’ زاد راه“،
”آخری تحفہ“ اور ”واردات“ ہیں۔ ناولوں میں ”بیوه“، ”بازار حسن“، ”گوشہ
عافیت“، ”میدان عمل“، ”چوگان ہستی“, اور ”گودان“ بہت مشہور ہیں۔
خلاصہ:
گلی ڈنڈا پریم چند کا مقبول افسانہ ہے۔یہ دو دوستوں کی کہانی ہے جو بچپن میں ایک قصبے میں گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے۔ افسانے کے ابتدائی حصے میں پریم چند نے گلی ڈنڈا کی خوبیاں بتائی ہیں کہ یہ دوسرے کھیلوں سے اور خاص طور پر انگریزوں کے کھیلوں سے بہتر ہے کیونکہ اس میں زیادہ خرچ نہیں ہوتا۔مصنف کو اپنی بچپن کی یادوں میں گلّی ڈنڈا سب سے شیریں یاد لگتی ہے۔اسے اپنے گاؤں میں درختوں پر چڑھ کر ٹہنیاں کاٹ کر گلّی ڈنڈا بنانا۔ وہ جوش و خروش ، وہ لگن ،وہ کھلاڑیوں کے جمگھٹے، وہ پدنا اور پدانا ، وہ لڑائی جھگڑے جس میں چھوت چھات ، امیر غریب کی کوئی تمیز نہ تھی سب بہت یاد آتا۔ مصنف کے ساتھ گلّی ڈنڈا کھیلنے والے میں ایک لڑکا گیا نام کا بھی تھا۔جو اس سے عمر میں دو سال بڑا تھا۔ وہ بہت پھرتیلا ،لمبا اور تیز تھا۔وہ گلّی ڈنڈے میں ماہر تھا۔ اُس کے ماں باپ کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں معلوم تھا۔ وہ گلّے ڈنڈا کلب کا چیمپئن بھی تھا۔ ایک بار مصنف اور گیا گلّی ڈنڈا کھیل رہے تھے۔ مصنف پد رہا تھا اور وہ پِدا رہا تھا۔ پدانے میں تو اچھا لگتا ہے لیکن پِدنے میں نہیں۔آخر کار مصنف نے ایسی چالیں چلیں جو خلاف قانون تھیں لیکن قابل معافی تھیں۔ مگر گیا اپنا داؤں لیے بغیر پیچھانہیں چھوڑتا تھا۔ کھیل کے درمیان مصنف گھر بھاگنے لگا لیکن گیا نے اسے روکا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو گالیاں دیں اور گیا نے مصنف کو ایک ڈنڈا بھی جمایا۔ مصنف رونے لگا۔ مصنف تھانیدار کا بیٹا تھا اور وہ ایک معمولی لونڈے کے ہاتھوں پِٹا تھا۔ یہ مصنف کے لیے ایک ہتھیار تھا جس سے گیا خوف زدہ ہوگیا اور وہاں سے بھاگ نکلا۔ انہیں دنوں مصنف کے والد کا تبادلہ ہوگیا۔ گرچہ اس کی ماں وہاں جانے سے خوش نہیں تھی اس لیے کہ یہاں کے لوگوں سے اسے لگاؤ ہوگیا تھا اور یہ رہنے کے لیے بھی ایک سستی جگہ تھی۔ اسے اس جگہ سے پیار ہو گیا تھا۔ وہیں دوسری جانب نئی جگہ جانے سے مصنف بہت خوش تھا اور وہ نئی جگہ کے بارے میں اپنے دوستوں سے شیخی بگھار رہا تھا۔20 سال گزر گئے ۔مصنف اب انجینئر بن چکا تھا۔ وہ گاؤں واپس آیا۔اتنے دنوں میں گاؤں بہت بدل چکا تھا۔ وہاں اس نے بچّوں کو گِلّی ڈنڈا کھیلتے دیکھا۔ اس نے ان سے گیا کے بارے میں پوچھا۔ ان میں سے ایک بچّہ ایک بڑے سے آدمی کو لے کر آیا جو اسے کالے دیو جیسا نظر آ رہا تھا۔ مصنف نے اسے پہچان لیا وہ گیا ہی تھا۔ گیا نے بھی مصنف کو پہچان لیا۔ گیا نے مصنف کو بتایا کہ اب وہ ڈپٹی کا سائیس ہے۔ مصنف نے اس سے گِلّی ڈنڈا کھیلنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ مشکل سے کھیلنے کے لیے راضی ہوا۔ لوگ زیادہ بھیڑ نہ لگائیں اور ان کے کھیل کو عجوبہ سمجھ کر تماشہ نہ بنادیں اس لیے وہ گیا کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر بستی سے دور چلا گیا۔ گیا اتنے دنوں بعد اچھے سے نہیں کھیل پا رہا تھا۔ اس کی تیزی ختم ہو چکی تھی اور اب اس سے گِلّی بھی نہیں پکڑی جا رہی تھی۔ مصنف نے طرح طرح کے فریب کیے۔ گیا یہ سب دیکھ رہا تھا لیکن کچھ بول نہیں رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ گِلّی ڈنڈا کے سارے قاعدے قانون بھول گیا ہو۔ کھیل کے دوران ڈنڈے پر گلّی لگنے کے باوجود مصنف نے اس بات سے انکار کردیا تھا کہ گِلّی اس کے ڈنڈے سے لگی ہے۔ یہ ایک کھلا جھوٹ تھا لیکن گیا پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا اور اس نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔ پھر مصنف نے فراخ دلی دکھاتے ہوئے گیا کو داؤں دے دیا۔ گیا نے پِدانا شروع کیا لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کھیلنا بھول چکا ہو۔ اب اس کی مشق بالکل نہ رہی تھی۔ وہ کھیل ختم کرکے بستی واپس جانے لگے۔ گیا نے بتایا کہ اگلے دن گاؤں میں گِلّی ڈنڈے کا میچ ہوگا۔ اگلے دن مصنف میچ دیکھنے گیا۔وہاں اس کے بچپن کے کچھ ساتھی بھی تھے۔ اس دن گیا بہت اچھا کھیل رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مصنف حیران رہ گیا۔ پچھلے دن جیسی بے دلی، ہچکچاہٹ، جھجھک اس دن نہ تھی۔ اب مصنف سمجھا کہ وہ اس کے ساتھ کھیلنے کا بہانہ کر رہا تھا اور وہ اسے صرف کھلا رہا تھا۔ وہ اسے ہرانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اسے اپنے برابر نہیں اپنے سے اونچا سمجھتا تھا ۔پہلے یہ اس کا ساتھی تھا لیکن اب وہ ایک افسر ہے۔ پہلے ان میں کوئی فرق نہ تھا۔ لیکن مصنف کو لگا کہ اب وہ گیا کی نظر میں عہدہ پاکر رحم کے قابل ہو گیا ہے۔ گیا اسے برابر کا نہیں سمجھتا۔ مصنف کو لگا کہ اب گیا بڑا ہوگیا ہے اوروہ چھوٹا۔ |
سوالوں کے جواب لکھیے:
1. مصنف نے گلّی ڈنڈے کو کھیلوں کا راجہ کیوں کہا ہے
جواب:
مصنف نے گلی ڈنڈے کو کھیلوں کا راجہ اس بنیاد پر کہا ہے کہ اس میں لان ، نیٹ،
بلّے کی ضرورت نہیں۔ گلّی ڈنڈا ایک درخت کی شاخ کاٹ کر بنا لیا جاتا ہے۔ اس میں
پیسہ خرچ نہیں ہوتا۔باقی انگریزی کھیلوں میں پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جیسے کرکٹ،
ٹینس،والی بال وغیرہ۔
2. گیا کے داؤں سے بچنے کے لیے ضلع انجینئر نے کون کون سی چال چلی؟
جواب:گیا کے داؤں سے بچنے کے لیے ضلح انجینیئر نے بہت ساری بے ایمانی کی۔ وہ داؤں
پورا ہونے کے بعد بھی کھیلے جاتا تھا جبکہ گیا کی باری آنی چاہیے تھی۔اس نے
کھیل کے بہت سے قاعدے قانون توڑے۔
3.مصنف کو یہ احساس کیوں کر ہوا کہ گیا اس سے جان بوجھ کر ہار رہا تھا؟
جواب:مصنف کو یہ احساس اس لیے ہوا کیونکہ اس کے اگلے دن جب گیا اپنے
ساتھیوں کے ساتھ کھیل رہا تھا تو وہ ایک ماہر کھلاڑی کی طرح ٹل لگا رہا تھا اور
مخالف ٹیم کی گلیوں کو پکڑ رہا تھا۔یہ دیکھ کر اسے خیال آیا کہ وہ پچھلے دن
کھیل نہیں رہا تھا کھلا رہا تھا۔
4.اگر آپ گیا کی جگہ ہوتے تو آپ کا رویہ کیسا ہوتا؟
جواب:جس زمانے کی یہ کہانی ہے اس حساب سے ایک ضلع انجینئر اور ایک ان پڑھ میں بہت
فرق تھا بچپن کی دوستی ہونے کے باوجود ہمارا بھی وہی رویہ ہوتا جو گیا کا
تھا۔
0 comments:
Post a Comment