آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Saturday, 14 November 2020

Guddi Ka Lal-Noor Khan by Maulwi Abdul Haq NCERT Class 10 Gulzar e Urdu

گدڑی کا لال نورخان

لوگ بادشاہوں اور امیروں کے قصیدے اور مرثیے لکھتے ہیں ۔ نامور اور مشہور لوگوں کے حالات قلم بند کرتے ہیں۔ میں ایک غریب سپاہی کا حال لکھتا ہوں اس خیال سے کہ شاید کوئی پڑھے اور سمجھے کہ دولت مندوں، امیروں اور بڑے لوگوں ہی کے حالات لکھنے اور پڑھنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ غریبوں میں بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی ہمارے لیے سبق آموز ہوسکتی ہے۔ انسان کا بہترین مطالعہ انسان ہے اور انسان ہونے میں امیر غریب کا کوئی فرق نہیں ہے

پھول میں گر آن ہے کانٹے میں بھی ایک شان ہے

  نور خاں مرحوم کنٹنجنٹ کے اول رسالے میں سپاہی سے بھرتی ہوئے ۔ انگریزی افواج میں حیدرآباد کی کنٹنجنٹ خاص حیثیت اور امتیاز رکھتی تھی۔ ہر شخص اس میں بھرتی نہیں ہوسکتا تھا، بہت دیکھ بھال ہوتی تھی ۔ بعض اوقات نسب نامے تک دیکھے جاتے تھے تب کہیں جا کر ملازمت ملتی تھی ۔ کوشش یہ ہوتی تھی کہ صرف شرفا اس میں بھرتی کیے جائیں ۔ یہی و جہ تھی کہ کنٹنجنٹ والے عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ لیکن بعد میں یہ قید بھی اٹھ گئی اور اس میں اور انگریزوں کی دوسری فوجوں میں کوئی فرق نہ رہا۔ پہلے زمانے میں سپاہ گری بہت معزز پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ اب اس میں اور دوسرے پیشوں میں کوئی فرق نہیں رہا۔ بات یہ ہے کہ اشراف کا سنبھالنا مشکل کام ہے۔ اس میں ایک آن بان اور خودداری ہوتی ہے جو بہادری اور انسانیت کا اصل جوہر ہے، ہر کوئی اس کی قدر نہیں کرسکتا۔ اس لیے شریف روتا اور ذلیل ہنستا ہے۔ یہ جتنا پھیلتا ہے وہ اتنا ہی سکڑتا ہے۔ کرنل نواب افرالملک بہادر بھی نور خاں مرحوم ہی کے رسالے کے ہیں ۔ کنٹنجنٹ کے بہت سے لوگ اکثر تو کرنل صاحب موصوف کے توسط سے اور بعض اور ذرائع سے حیدرآباد ریاست میں آ کر ملازم ہو گئے ۔ ان میں بہت سے نواب ، کرنل، میجر، کپتان اور بڑے بڑے عہدے دار ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کوئی نور خاں بھی ہے؟

اول رسالے کے بعض لوگوں سے معلوم ہوا کہ خان صاحب مرحوم فوج میں بھی بڑی آن بان سے رہے اور سچائی اور فرض شناسی میں مشہور تھے۔ یہ ڈرل انسٹرکٹر تھے یعنی گوروں کو جو نئے بھرتی ہو کر آتے تھے ڈرل سکھاتے تھے۔ اس لیے اکثر گورے افسروں سے واقف تھے۔ وہ بڑے شہسوار تھے۔ گھوڑے کو خوب پہچانتے تھے۔ بڑے بڑے سرکش گھوڑے جو پٹھے پر ہاتھ نہ دھرنے دیتے تھے، انھوں نے درست کیے۔ گھوڑے کے سدھانے اور پھیرنے میں انھیں کمال تھا۔ چوں کہ بدن کے چھریرے اور ہلکے پھلکے 

تھے، گھڑ دوڑوں میں گھوڑے دوڑاتے تھے اور اکثر شرطیں جیتے تھے۔ ان کے افسر ان کی مستعدی، خوش تدبیری اور سلیقے سے بہت خوش تھے لیکن کھرے پن سے وہ اکثر اوقات ناراض ہو جاتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ان کے کمانڈنگ افسر نے کسی بات پر خفا ہوکر جیسا کہ انگریزوں کا عام قاعدہ ہے انھیں 'ڈیم' کہہ دیا۔ یہ تو گالی تھی، خاں صاحب کسی کی ترچھی نظر کے بھی روادار نہ تھے۔ انھوں نے فوراً رپورٹ کر دی ۔ لوگوں نے چاہا کہ معاملہ رفع دفع ہوجائے اور آگے نہ بڑھے مگر خاں صاحب نے ایک نہ سنی۔ معاملے نے طول کھینچا اور جنرل صاحب کو لکھا گیا۔ کمانڈنگ افسر کا کورٹ مارشل ہوا اور اس سےکہا گیا کہ خان صاحب سے معافی ما نگے ۔ ہر چند اس نے بچنا چاہا مگر پیش نہ گئی اور مجبوراً اسے معافی مانگنی پڑی۔ ایسی خودداری اور نازک مزاجی پر ترقی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دفعداری سے آگے نہ بڑھے۔

اچھے برے ہر قوم میں ہوتے ہیں ۔ شریف افسر خاں صاحب کی سچائی ، دیانت اور جفاکشی کی بہت قدر کرتے تھے اور ان کو اپنی اردلی میں رکھتے تھے مگر بعض ایسے بھی تھے جن کے سر میں خناس سمایا ہوا تھا، انھیں خاں صاحب کے بہ ڈھنگ پسند نہ تھے اور

وہ ہمیشہ ان کے نقصان کے در پے رہتے تھے۔ ایسے لوگ اپنی اور اپنی قوم والوں کی خوداری کو تو جو ہر شرافت سمجھتے ہیں لیکن اگر یہی جو ہرکسی دیسی میں ہوتا ہے تو اسے غرور اور گستاخی پر محمول کرتے ہیں ۔ تاہم ان کے بعض انگریزی افسران پر بہت مہربان تھے۔ خاص کر کرنل فرن ٹین ان پر بڑی عنایت کرتے تھے اور خاں صاحب پر اس قدر اعتبار تھا کہ شاید کسی اور پر ہو۔ جب کرنل صاحب نے اپنی خدمت سے استعفا دیا تو اپنا تمام مال و اسباب اور سامان جو ہزارہا روپے کا تھا، خاں صاحب کے سپرد کر گئے ۔ یہ امر انگریز افسروں کو بہت ناگوار ہوا۔ اس وقت کے کمانڈنگ افسر سے نہ رہا گیا اور اس نے کرنل موصوف کو خط لکھا کہ آپ نے ہم پر اعتماد نہ کیا اور ایک دیسی دفعدار کو اپنا تمام قیمتی سامان حوالے کر گئے ۔ اگر آپ یہ سامان ہمارے سپرد کر جاتے تو اسے اچھے داموں میں فروخت کر کے قیمت آپ کے پاس بھیج دیتے۔ اب بھی اگر آپ لکھیں تو اس کا انتظام ہوسکتا ہے۔ کرنل نے جواب دیا کہ مجھے نورخان پرتمام انگریز افسروں سے زیادہ اعتماد ہے ، آپ کوزحمت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس پر یہ لوگ اور برہم ہوئے۔

ایک بار کمانڈنگ افسر یہ سامان دیکھنے آیا اور کہنے لگا کہ فلاں فلاں چیز میم صاحب نے ہمارے ہاں سے منگائی تھی، چلتے

وقت واپس کرنی بھول گئے ، اب تم یہ سب چیزیں ہمارے بنگلے پر بھیج دو۔ خاں صاحب نے کہا میں ایک چیز بھی نہیں دوں گا، آپ کرنل صاحب کو لکھیے وہ اگر مجھے لکھیں گے تو مجھے دینے میں کچھ عذر نہ ہوگا۔ وہ اس جواب پر بہت بگڑا اور کہنے لگا تم ہمیں جھوٹا سمجھتے ہو؟ خاں صاحب نے کہا میں آپ کو جھوٹا نہیں سمجھتا، یہ سامان میرے پاس امانت ہے اور میں کسی کو اس میں سے ایک تنکا بھی دینے کا مجاز نہیں ۔ غرض وہ بڑ بڑاتا ہوا کھسیانا ہو کر چلا گیا۔ خاں صاحب نے ایک انگریزی محرر سے اس سامان کی مکمل فہرست تیار کرائی اور کچھ تو خود خرید کر کچھ نیلام کے ذریعے بیچ کر ساری رقم کرنل صاحب کو بھیج دی۔

نہ معلوم یہی کرنل تھا یا کوئی دوسرا افسر، جب ملازمت سے قطع تعلق کر کے جانے لگا تو اس نے ایک سونے کی گھڑی، ایک عمدہ بندوق اور پانسوروپے نقد خاں صاحب کو بطور انعام یاشکرانے کے دیے۔ خاں صاحب نے لینے سے انکار کیا کرنل اور اس کی بیوی نے بہتیرا اصرار کیا مگر انھوں نے سوائے ایک بندوق کے دوسری چیز نہ لی اور باقی سب چیز یں واپس کر دیں۔

کرنل اسٹوارٹ بھی جو ہنگو لی چھاؤنی کے افسر، کمانڈنگ افسر تھے، ان پر بہت مہربان تھے۔ رسالے کے شریف انگریز ان سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے بعد انگریز افسرتم کو بہت نقصان پہنچائیں گے ۔ وہ ان کی روش سے خوش نہ تھے اور خوش کیوں کر ہوتے، خوشامد سے انھیں چڑ تھی اور غلامانہ اطاعت آتی نہیں تھی۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ اپنے کرنل کے ہاں کھڑے تھے کہ ایک انگریز افسر گھوڑے پر سوار آیا، گھوڑے سے اتر کر اس نے خاں صاحب سے کہا کہ گھوڑا پکڑو ۔ انھوں نے کہا ” میں سائیں نہیں ہوں ۔ اس نے ایسا جواب کا ہے کو سنا تھا، بہت چیں بہ جببیں ہوامگر کیا کرتا، آخر باگ درخت کی ایک شاخ سے انکا کر اندر چلا گیا۔ اب نہ معلوم یہ خاں صاحب کی شرارت تھی یا اتفاق تھا کہ باگ شاخ میں سے نکل گئی اور گھوڑا بھاگ نکلا۔ اب جو صاحب باہر آئے تو گھوڑا ندارد۔ بہت جھنجھلایا، بڑی مشکل سے تلاش کر کے پکڑوایا تو جگہ جگہ سے زخمی پایا۔ اس نے کرنل صاحب سے خاں صاحب کی بہت شکایت کی۔ معلوم نہیں کرنل نے اس انگر یز کو کیا جواب دیا لیکن وہ خاں صاحب سے بہت خوش ہوا اور کہا کہ تم نے خوب کیا۔

خاں صاحب نے جب یہ رنگ دیکھا تو خیر اسی میں دیکھی کہ کسی طرح وظیفہ لے کر الگ ہو جائیں۔ وہ بیمار بن گئے اور ہسپتال میں رجوع ہوئے۔ کرنل اسٹوارٹ نے ڈاکٹر سے کہہ کر ان کو مدد دی اور اس طرح وہ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر کی رپورٹ پر وظیفہ لے کر فوجی ملازمت سے سبک دوش ہوگئے ۔ سچ ہے انسان کی برائیاں ہی اس کی تباہی کا باعث نہیں ہوتیں بعض وقت اس کی خوبیاں بھی اسے لے ڈوبتی ہیں ۔

کرنل اسٹوارٹ نے بہت چاہا کہ وہ مسٹر ہنکن ناظم پولیس سے سفارش کر کے انھیں ایک اچھا عہده دلا دیں مگر خاں صاحب نے اسے قبول نہ کیا اور کہا کہ میں اب اپنے وطن دولت آباد ہی میں رہنا چاہتا ہوں ۔ اگر آپ صوبے دار صاحب اورنگ آباد سے سفارش فرما دیں تو بہت اچھا ہو ۔ کرنل صاحب بہت اصرار کرتے رہے کہ دیکھو میں پولیس میں بہت اچھی خدمت مل جائے گی انکار نہ کرو مگر یہ نہ مانے۔ آخر مجبور ہو کر نواب مقتدر جنگ بہادر صوبے دار صوبہ اورنگ آباد سے سفارش کی ۔ صوبے دار صاحب کی عنایت سے وہ قلعہ دولت آباد کی جمعیت کے جمعدار ہو گئے اور بہت خوش تھے۔

نواب مقتدر جنگ کے بعد نواب بشیر نواز جنگ اورنگ آباد کی صوبے داری پر آئے۔ وہ بھی خاں صاحب پر بہت مہربان تھے۔ اسی زمانے میں لارڈ کرزن وائسراے دولت آباد تشریف لائے ۔ خاں صاحب نے سلامی دینے کی تیاری کی کئی توپیں ساتھ ساتھ رکھ کر سلامی دینی شروع کی ۔ لارڈ کرزن گھڑی نکال کر دیکھ رہے تھے۔ جب سلامی ختم ہوئی تو نواب صاحب سے خاں صاحب کی تعریف کی ۔ سلامی ایسے قاعدے اور اندازے سے دی کہ ایک سیکنڈ کا فرق نہ ہونے پایا۔ نواب صاحب نے اس کا تذکرہ خاں صاحب سے کیا اور کہا کہ میاں اب تمھاری خیر نہیں معلوم ہوتی۔

لارڈ کرزن جب قلعہ کے اوپر بالا حصار پر گئے تو وہاں سستانے کے لیے کرسی پر بیٹھ گئے اور جیب سے سگرٹ دان نکال کر سگریٹ پینا چاہا۔ دیا سلائی نکال کر سگرٹ سلگایا ہی تھا کہ یہ فوجی سلام کر کے آگے بڑھا اور کہا کہ یہاں سگریٹ پینے کی اجازت نہیں ہے۔ لارڈ کرزن نے جلتا ہوا سگرٹ نیچے پھینک دیا اور جوتے سے رگڑ ڈالا۔ یہ حرکت دیکھ کر نواب بشیر نواز جنگ بہادر اور دوسرے عہدے داروں کا رنگ فق ہو گیا مگر موقع ایسا تھا کہ کچھ کہ نہیں سکتے تھے لہو کے سے گھونٹ پی کر چپ رہ گئے۔ بعد میں بہت کچھ لے دے کی مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ خاں صاحب نے قاعدے کی پوری پابندی کی تھی، اس میں چوں و چرا کی گنجائش نہ تھی۔

اب اسے اتفاق کہیے یا خاں صاحب کی تقدیر کہ لارڈ کرزن نے جانے کے بعد ہی فنانس کی معتمدی کے لیے مسٹر وا کر کا انتخاب کیا ۔ ریاست کے مالیے کی حالت اس زمانے میں بہت خراب تھی۔ مسٹر واکر نے اصلاحیں شروع کیں ۔ اس لپیٹ میں قلعہ دولت آباد بھی آ گیا، اوروں کے ساتھ خاں صاحب بھی تخفیف میں آگئے۔

دولت آباد میں ان کی کچھ زمین تھی، اس میں باغ لگانا شروع کردیا۔ مسٹر وا کر دورے پر دولت آباد آئے تو ایک روز ٹہلتے ٹہلتے ان کے باغ میں بھی آپہنچے۔ خاں صاحب بیٹھے گھاس کرپ رہے تھے ۔ مسٹر واکر کو آتے دیکھا تو اٹھ کر سلام کیا۔ پوچھا کیا حال ہے، کہنے لگے آپ کی جان و مال کو دعا دیتا ہوں ۔ اب آپ کی بدولت گھاس کھودنے کی نوبت آگئی ۔ مسٹر واکر نے کہا یہ اچھا کام ہے ۔ دیکھو تمھارے درخت انجیروں سے کیسے لدے ہوئے ہیں ۔ ایک ایک آنے کو بھی ایک ایک انجیر بیچو توکتنی آمدنی ہوجائے گی ۔ خاں صاحب گھبرائے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کم بخت انجیروں پر بھی ٹیکس لگا دے۔ تڑ سے جواب دیا کہ آپ نے انجیر لدے ہوئے تو دیکھ لیے اور یہ نہ دیکھا کہ کتے سڑ گل کر گر جاتے ہیں۔ کتنے آندھی ہواسے گر پڑتے ہیں، کتے پرند کھا جاتے ہیں اور پھر ہماری دن رات کی محنت مسٹرواکر مسکراتے ہوئے چلے گئے۔

اسی زمانے میں ڈاکٹر سید سراج الحسن صاحب اورنگ آباد کے صدر مہتمم تعلیمات ہوکر آئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بلا کے مردم شناس ہیں ۔ تھوڑی ہی دیر میں اور چند ہی باتوں میں آدمی کو ایسا پرکھ لیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ پھر جیسا وہ آدمی کو سمجھتے ہیں ویسا ہی نکلتا ہے۔ کبھی خطا ہوتے نہیں دیکھی۔ ڈاکٹر صاحب ایسے قابل جوہروں کی تلاش میں رہتے ہیں، فوراً ہی اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔ ڈاکٹر صاحب کا برتاؤ ان سے بہت شریفانہ اور دوستانہ تھا۔ نواب برز ور جنگ اس زمانے میں صوبے دار تھے ۔ مقبرے کا باغ ان کی نگرانی میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے سفارش کر کے باغ سے پانچ روپے ماہانہ الونس (الاؤنس) مقرر کر دیا۔

نواب برزور جنگ کے پاس ایک گھوڑا تھا، وہ اسے بیچنا چاہتے تھے ۔ کلب میں کہیں اس کا ذکر آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا مجھے گھوڑے کی ضرورت ہے۔ میں اسے خرید لوں گا مگر پہلے نورخاں کو دکھالوں ۔ وہاں سے آ کر ڈاکٹر صاحب نے خاں صاحب سے یہ واقعہ بیان کیا اور کہا کہ بھئی اس گھوڑے کو دیکھ آؤ کوئی عیب تو نہیں ۔ خاں صاحب نے کہا آپ نے غضب کیا میرا نام لے دیا۔ گھوڑے میں کوئی عیب ہوا تو میں چھپاؤں گا نہیں اور صوبے دار صاحب مفت میں مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا تم خواہ مخواہ و ہم کرتے ہو، کل جا کے ضرور گھوڑا د یکھ لو۔ خاں صاحب گئے ۔ گھوڑا نسل کا تو اچھا تھا مگر پانچوں شرعی عیب موجود تھے۔ انھوں نے صاف صاف آکے کہہ دیا اور ڈاکٹر صاحب نے خریدنے سے انکار کردیا۔ صوبے دار صاحب آگ بگولا ہوگئے ۔ دوسرے روز مقبرے میں آئے۔ باغ کا رجسٹر منگایا اور نور خاں کے نام پر اس زور سے قلم کھینچا کہ اگر لفظوں میں جان ہوتی تو وہ بلبلا اٹھتے ۔ ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہوا تو بہت افسوس کیا مگر انھوں نے اس کی تلافی کر دی ۔ یہ سن کر صوبے دار صاحب اور بھی جھنجلائے۔

ڈاکٹر صاحب ترقی پاکر حیدر آباد چلے گئے ۔ ان کی خدمت کا دوسرا انتظام ہو گیا۔ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر صاحب ناظم تعلیمات ہو گئے اور میں ان کی عنایت سے صدر مہتمم تعلیمات ہوکر اورنگ آباد آیا۔ ڈاکٹر صاحب ہی نے مجھے نورخان سے ملایا اور ان کی سفارش کی ۔ ڈاکٹر صاحب نے انھیں عارضی طور پر دولت آباد میں مدرس کر دیا تھا، میں نے عارضی طو پر اپنے دفتر میں محرر کردیا، وہ مدرسی اور محرری تو کیا کرتے مگر بہت سے مدرسوں اور محرروں سے زیادہ کارآمد تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے جب باغ کی نگرانی میرے حوالے کی تو خاں صاحب کا الونس بھی جاری ہو گیا۔

  اعلاحضرت واقدس بعد تخت نشینی اورنگ آباد رونق افروز ہوئے تو یہاں کی خوش آب و ہوا کو بہت پسند فرمایا اور عظیم الشان  باغ لگانے کا حکم دیا۔ یہ کام ڈاکٹر صاحب کے سپرد ہوا اور ان سے بہتر کوئی یہ کام کر بھی نہیں سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی مہربانی سے آخر اس باغ کے عملے میں خاں صاحب کو بھی ایک اچھی سی جگہ مل گئی جو ان کی طبیعت کے مناسب تھی اور آخر دم تک وہ اسی خدمت پر ہے۔ اور جب تک دم میں دم رہا، اپنے کام کو بڑی محنت اور دیانت سے کرتے رہے۔

   یوں محنت سے کام تو اور بھی کرتے ہیں لیکن خاں صاحب میں بعض ایسی خوبیاں تھیں جو بڑے بڑے لوگوں میں بھی نہیں ہوتیں ۔ سچائی بات کی اور معاملے کی ان کی سرشت میں تھی ۔ خواہ جان ہی پر کیوں نہ بن جائے وہ سچ کہنے سے کبھی نہیں چوکتے  تھے۔ اس میں انھیں نقصان بھی اٹھانے پڑے مگر وہ سچائی کی خاطر سب کچھ گوارا کر لیتے تھے ۔ مستعد ایسے تھے کہ اچھے اچھے جوان ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ دن ہو، رات ہو، ہر وقت کام کرنے کے لیے تیار۔ اکثر دولت آباد سے پیدل آتے جاتے تھے۔ کسی کام کو کہے تو ایسی خوشی خوشی کرتے تھے کہ کوئی اپنا کام بھی اس قدر خوشی سے نہ کرتا ہوگا۔ دوستی کے بڑے پکے اور بڑے وضع دار تھے ۔ چونکہ ادنا اعلا سب ان کی عزت کرتے تھے اس لیے ان سے غریب دوستوں کے بہت سے کام نکلتے تھے ۔ ان کا گھر مہمان سرائے تھا۔ اورنگ آباد کے آنے جانے والے کھانے کے وقت بے تکلف ان کے گھر جاتے اور وہ اس سے بہت خوش ہوتے تھے۔ بعض لوگ جو مسافر بنگلے میں آ کر ٹھہر جاتے تھے ان کی بھی دعوت کر دیتے تھے ۔ بعض اوقات ٹولیوں کی ٹولیاں پہنچ جاتی تھیں اور وہ ان کی دعوتیں بڑی فیاضی سے کرتے تھے۔ اس قدر قلیل معاش ہونے پر ان کی یہ مہمان نوازی دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ ان کی بیوی بھی ایسی نیک بخت تھی کہ دفعتاً مہمانوں کے پہنچ جانے سے کبیدہ خاطر نہ ہوتی تھی بلکہ خوشی خوشی کام کرتی اور کھلاتی تھی ۔ خوددار ایسے تھے کہ کسی سے ایک پیسے کا روادار نہ ہوتے تھے۔ ڈاکٹر سراج الحسن ہر چند طرح طرح سے ان کے ساتھ سلوک کرنا چاہتے تھے مگر وہ ٹال جاتے تھے۔ مجھ سے انھیں خاص أنس تھا۔ میں کوئی چیز دیتا تو کبھی انکار نہ کرتے بلکہ کبھی کبھی خود فرمائش کرتے تھے۔ مٹھاس کے بے حد شائق تھے۔ ان کا قول تھا کہ اگر کسی کو کھانے کو میٹھا ملے تو نمکین کیوں کھائے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ نمکین کھانا مجبوری سے کھاتا ہوں، مجھ میں اگر استطاعت ہو تو ہمیشہ مٹھاس ہی کھایا کروں اور نمکین کو ہاتھ نہ لگاؤں ۔ انھیں مٹھاس کھاتے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ اکثر جیب میں گڑ رکھتے تھے۔ ایک بار میرے ساتھ دعوت میں گئے قسم قسم کے تکلف کے کھانے تھے۔ خاں صاحب نے چھوٹتے ہی میٹھے پر ہاتھ ڈالا۔ ایک صاحب جو دعوت میں شریک تھے یہ خیال کر کے کہ خان صاحب کو دھوکا ہوا ہے کہنے لگے کہ حضرت یہ میٹھا ہے۔ مگر انھوں نے کچھ پروا نہ کی اور برابر کھاتے رہے۔ جب وہ ختم ہو گیا تو دوسرے میٹھے پر ہاتھ بڑھایا۔ ان صاحب نے پھرٹوکا کہ حضرت یہ میٹھا ہے، انھوں نے کچھ جواب نہ دیا اور اسے بھی ختم کر ڈالا۔ جب بھی وہ کسی دوست کے ہاں جاتے تو وہ انھیں ضرور میٹھا کھلاتے اور یہ خوش ہو کر کھاتے۔

  خان صاحب بہت زندہ دل تھے، چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی جسے دیکھ کر خوشی ہوتی تھی۔ وہ بچوں میں بچے، جوانوں میں جوان اور بوڑھوں میں بوڑھے تھے۔ غم اور فکر کو پاس نہ آنے دیتے تھے اور ہمیشہ خوش رہتے تھے اور دوسروں کو بھی خوش رکھتے تھے۔ ان سے ملنے اور باتیں کرنے سے غم غلط ہوتا تھا۔ آخر دم تک ان کی زندہ دلی ویسی ہی رہی۔

  ڈاکٹر سراج الحسن صاحب جب کبھی اورنگ آباد آتے تو اسٹیشن سے اترتے ہی اپنا روپیہ پیسہ سب ان کے حوالے کر دیتے اور سب خرچ انھیں کے ہاتھ سے ہوتا تھا۔ جانے سے پہلے ایک روز قبل وہ حساب لے کے بٹھتے بعض وقت جب بدہ نہ ملتی تو آدھی آدھی رات تک لیے بیٹھے رہتے تھے۔ ہر چند ڈاکٹر صاحب کہتے کہ خاں صاحب یہ تم کیا کرتے ہو، جو خرچ ہوا ہوا، باقی جو بچا وہ دے دیا یا زیادہ خرچ ہوا ہو تو لے لیا مگر وہ کہاں مانتے تھے، جب تک حساب ٹھیک نہ بیٹھتا انھیں اطمینان نہ ہوتا۔ چلتے وقت کہتے کہ لیجیے صاحب یہ آپ کا حساب ہے، اتنا خرچ ہوا اور اتنا بچا۔ یا کچھ زیادہ خرچ ہو جاتا تو کہتے کہ اتنے پیسے ہمارے خرچ ہوئے ہیں یہ ہمیں دلوائیے کبھی ایسا ہوا کہ انھیں کچھ شبہ ہوا تو جانے کے بعد پھر حساب لے کے بیٹھتے اور خط لکھ کر بھیجتے کہ اتنے آنے آپ کے رہ گئے تھے وہ بھیجے جاتے ہیں یا اتنے پیسے میرے زیادہ خرچ ہوگئے تھے وہ بھیج دیجیے گا۔ ڈاکٹر صاحب ان باتوں پر بہت جھنجھلاتے تھے مگر وہ اپنی وضع نہ چھوڑتے تھے۔

  وہ حساب کے کھرے، بات کے کھرے اور دل کے کھرے تھے۔ وہ مہر و وفا کے پتلے اور زندہ دلی کی تصویر تھے۔ ایسے نیک نفس، ہم درد، مرنج و مرنجان اور وضع دار لوگ کہاں ہوتے ہیں ۔ ان کے بڑھاپے پر جوانوں کو رشک آتا تھا اور ان کی مستعدی کو دیکھ کر دل میں امنگ پیدا ہوتی تھی۔ ان کی زندگی بے لوث تھی اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ کسی نہ کسی کام میں صرف ہوتا تھا۔ مجھے وہ اکثر یاد آتے ہیں اور یہی حال ان کے دوسرے جاننے والوں اور دوستوں کا ہے۔ اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ کیسا اچھا آدمی تھا۔ قومیں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں ۔ کاش ہم میں بہت سے نورخاں ہوتے !   

خاکہ

اصطلاحی معنی میں لفظ " خاکہ انگریزی لفظ اسکیچ (Sketch) کا ترجمہ ہے۔ خاکے سے مراد ایک ایسی نثری تحریر ہے جس میں کسی شخصیت کی منفرد اور نمایاں خصوصیات کو اس انداز سے بیان کیا جاتا ہے کہ اس کی مکمل تصویر آنکھوں کے سامنے آجائے ۔ اس کے لیے خاکہ لکھنے والے کا اس انسان کی شخصیت سے نہ صرف متاثر ہونا ضروری ہے بلکہ اس سے واقفیت اور قربت بھی لازمی ہے۔ خاکہ نگاری سوانح نگاری سے مختلف ہے۔ اس میں سوانح حیات کی طرح واقعات ترتیب وار نہیں لکھے جاتے اور نہ ہی تمام حالات و واقعات کا بیان کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ خاکہ نگاراسی شخصیت کا خاکہ لکھتا ہے جس سے وہ کسی نہ کسی طور پر متاثر ہوتا ہے لیکن اس کی تحریر سے مرعو بیت ظاہر نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا بیان ایسا ہونا چاہیے کہ وہ غیر جانبدار نظر آئے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ خاکے میں شخصیت کی خوبیوں اور خامیوں دونوں کو بیان کیا جائے۔ جس طرح خوبیوں کا بیان مرعوبیت سے پاک ہونا چاہیے اسی طرح خامیوں کے بیان میں ذاتی دشمنی و عناد کا پہلو نہیں آنا چاہیے خامیوں کے بیان میں بھی اپنائیت کا احساس نمایاں ہونا چاہیے۔

مولوی عبدالحق

(1870-1961)

بابائے اردو مولوی عبد الحق مغربی اتر پردیش کے قصبہ ہاپوڑ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وطن ہی میں حاصل کی ۔ 1894 میں ایم۔ اے۔ او کالج علی گڑھ سے بی۔ اے پاس کیا۔ مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ انجمن ترقی اردو کے سکریٹری مقرر ہوئے اور زندگی بھر اردو زبان کی خدمت میں مصروف رہے۔ انجمن کی جانب سے ان کی ادارت میں سہ ماہی ادبی رسالہ " اردو " جاری ہوا۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں الہ آباد یونیورسٹی نے ایل ایل  - ڈی اور علی گڑھ یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگریاں دیں۔

مولوی عبدالحق محقق، سوانح نگار، خاکہ نگار، لغت نویس، ماہر قواعد اور صاحب طرز انشا پرداز تھے۔ زبان سادہ اور پر اثر لکھتے تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں لکھیں اور مرتب کیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ دکن اور شمالی ہندوستان کے قدیم ادبی سرمائے کی بازیافت ہے۔ اس طرح بہت کی بیاضیں اور رسالے ضائع ہونے سے بچ گئے۔
ہندوستان اور پاکستان میں اردو زبان کی اشاعت کے سلسلے میں مولوی عبدالحق کی خدمات بے مثال ہیں۔
خلاصہ:
خلاصه:- مولوی عبدالحق نے نامور اور مشہور لوگوں کے حالات قلم بند کرنے کے بجائے ایک غریب سپاہی کا حال لکھا ہے۔ یہ نورمحمد خاں کنٹنجٹ کے اول رسالے میں سپاہی بھرتی ہوئے ۔ انگریزی افواج
حیدرآباد کی کنٹنجٹ خاص اور امتیازی حیثیت رکھتی تھی۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ نور خاں نے فوج میں بڑی آن بان کے ساتھ ملازمت کی اور اپنی سچائی، فرض شناسی کے باعث مشہور ہوئے۔ ان کے افسر ان کی مستعدی اور سلیقے سے بہت خوش تھے لیکن کھرے پن سے وہ اکثر ناراض ہو جاتے تھے۔ اچھے برے ہرقوم میں ہوتے ہیں، افسروں میں بعض ایسے بھی تھے جن کے سر میں خناس سمایا ہوا تھا، انہیں خاں صاحب کے یہ ڈھنگ پسند نہ تھے اور وہ ہمیشہ ان کے نقصان کے درپے رہتے تھے، تاہم ان کے بعض انگریزی افسران ان پر بہت مہربان تھے، خاص کر کریل فرن مٹین ان پر بڑی عنایت کرتے تھے اور خاں صاحب پر اس قدر اعتبار تها کہ شاید کسی پرہو۔
کرنل اسٹوارٹ بھی ہنگو لی چھاؤنی کے افسر، کمانڈنگ افسر تھے، ان پر بہت مہربان تھے ، رسالے کے شریف انگریز ان سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے بعد اور انگریز افسرتم کو بہت نقصان پہنچائیں گے اکثر انگریز افسران سے ایسا کام لینا چاہتے تھے جیسے ادنی غلام یاسائیس وغیرہ کا۔ خان صاحب نے جب یہ رنگ دیکھا تو خیر اسی میں دیکھی کہ کسی طرح وظیفہ لے کر الگ ہو جائیں۔ وہ بیمار بن گئے اور ہسپتال میں رجوع ہوئے۔ کریل اسٹوارٹ نے ڈاکٹر سے کہہ کر ان کو مدد دی اور وہ کچھ دنوں بعد ڈاکٹر کی رپورٹ پروظیفہ لے کر فوجی ملازمت
سے سبکدوش ہوگئے۔ کرنل اسٹوارٹ نے چاہا کہ وہ مسٹر نکن ، ناظم پولیس سے سفارش کر کے انہیں ایک اچھا عہدہ دلا دیں مگر خاں صاحب تیار نہ ہوئے ۔ نواب مقتدر جنگ بہادر صوبے دار اورنگ آباد نے انہیں قلعہ دولت آباد کی ریعیت کا جمعدار مقرر کر دیا تو خاں صاحب بہت خوش ہوئے۔
ایک بار لارڈ کرزن جب قلعہ کے اوپر بالاحصار پر گئے تو سستانے کیلئے کر سی پر بیٹھ گئے اور جیب سے سگریٹ نکال کر پینا چاہا۔ دیا سلائی نکال کر سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ خاں صاحب فوجی سلام کر کے آگے بڑھے اور کہا کہ یہاں سگریٹ پینے کی اجازت نہیں ہے۔ لارڈ کرزن نے جلتا ہوا سگریٹ نیچے پھینک کر جوتے سے رگڑ ڈالا۔ یہ دیکھ کر دوسرے عہدے داروں کا رنگ فق ہو گیا۔ انہیں دنوں فنانس کی معتدی کیلئے مسٹر واکر آگئے۔ ریاست کے مالیے کی حالت اس زمانے میں بہت خراب تھی۔ مسٹر وا کرنے اصلاحیں شروع کیں تو اوروں کے ساتھ نور خاں صاحب بھی تخفیف میں آگئے ۔ چنانچہ ملازمت ختم ہونے کے بعد دولت آباد میں ان کی کچھ زمین تھی، اس میں باغ اگانا شروع کر دیا۔ اسی زمانے میں ڈاکٹر سید سراج الحسن صاحب اورنگ آباد کے صدر مہتمم  تعلیمات ہو کر آئے تھے وہ بلا کے مردم شناس تھے، انہوں نے نواب پر زور سے سفارش کر کےخاں صاحب کو باغ کا نگراں مقرر کر دیا۔ نواب برز ور جنگ کے پاس ایک گھوڑا تھا جسے وہ بیچنا چاہتے تھے، ڈاکٹر سراج الحسن  نے اسے خریدنا چاہا لیکن خاں صاحب کو گھوڑا دکھانے پر پتہ چلا کہ اس گھوڑے میں عیب ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے گھوڑا خریدنے سے انکار کر دیا۔ نواب بزرور جنگ نے طیش میں آ کر خاں صاحب کی ملازمت ختم کر دی۔
مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر سید سراج الحسن ترقی پاکر حیدرآباد چلے گئے، کچھ دنوں بعد ڈاکٹر صاحب نے مولوی صاحب کوصدر ۔مہتمم تعلیمات اورنگ آباد بنا دیا۔ اور نور محمد خاں سے انہیں عارضی طور پر دولت آباد ہی میں مدرس کر دیا تھا۔ مولوی صاحب نے انہیں عارضی طور پر اپنے دفتر میں محرر کر دیا۔ مگر خان صاحب کی دلچسپی کے سامان یہاں نہیں تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے مولوی صاحب کو باغ کی نگرانی سپرد کی تو نور خاں باغ کے عملے میں شامل ہو گئے اور جب تک دم میں دم رہا اپنے کام کو بڑی محنت اور دیانت داری سے کرتے رہے۔ یوں محنت سے تو اور بھی کام کرتے تھے لیکن خاں صاحب میں بعض ایسی خوبیاں تھیں جو بڑے بڑے لوگوں میں بھی نہیں ہوتیں۔ وہ سچ کہنے سے کبھی نہیں چوکتے تھے۔ خواہ اس میں انہیں نقصان بھی اٹھانا پڑے مگروہ سچائی کی خاطر سب کچھ گوارا کر لیتے تھے۔ بڑے وضعدار تھے،کم آمدنی میں فراخدلی سے مہمان نوازی
کرتے، کسی سے کچھ مدد قبول نہ کرتے۔ میٹھا کھانے کے بہت شوقین تھے ، نور خاں بہت زندہ دل تھے غم اور فکر کو پاس نہ آنے دیتے خود خوش رہتے دوسروں کو بھی خوش رکھتے۔
نور خاں صاحب بات کے اور دل کے کھرے تھے۔ ان کے بڑھاپے پر جوانوں کو رشک آتا تھا۔ اور ان کی مستعدی دیکھ کر امنگ پیدا ہوتی تھی۔ ان کی زندگی بے لوث تھی اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ کسی نہ کسی کام میں صرف ہوتا تھا۔ قو میں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں۔ کاش ہم میں بہت سے نورخاں ہوتے!

  سوالوں کے جواب لکھے :

   1۔ مصنف نے نورخاں کو گدڑی کا لال کیوں کہا ہے؟

   2۔ نور خاں نے کمانڈرنگ آفیسر کی رپورٹ کیوں کی اور اس کا کیا اثر ہوا؟

   3. نورخاں کی فرض شناسی کے کسی ایک واقعے کو اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

   4. ”قومیں ایسے ہی لوگوں سے بنتی ہیں“ اس جملے کی وضاحت کیجیے۔

 

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری