حقیقتِ حسن
علامہ اقبال
خدا سے حُسن نے اک روز یہ سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا
ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا
شبِ درازِ عدم کا فسانہ ہے دنیا
ہوئی ہے رنگِ تغیر سے جب نمود اس کی
وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی
کہیں قریب تھا ، یہ گفتگو قمر نے سُنی
فلک پہ عام ہوئی، اختر سحر نے سُنی
سحر نے تارے سے سُن کر سنائی شبنم کو
فلک کی بات بتادی زمیں کے محرم کو
بھر آئے پھول کے آنسو پیامِ شبنم سے
کلی کا ننھا سا دل خون ہو گیا غم سے
چمن سے روتا ہوا موسمِ بہار گیا
!شباب سیر کو آیا تھا ، سوگوار گیا
تشریح:
اقبال کی یہ نظم مختصر ہے کل چودہ مصرعے ہیں ان مصرعوں میں اقبال نے بتایا ہے کہ دنیا کی ہر شے فانی ہے خواہ وہ کتنی ہی خوبصورت ہو۔ اقبال نے اس کی مثالیں پیش کی ہیں۔ چاند، صبح کے ستارے ، صبح شبنم، پھول، موسم بہار، شباب سب ناپائدار ہیں۔ اس دنیا میں کچھ دیر کیلئے آتے ہیں، اپنی بہار دکھا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ ان مثالوں سے اقبال نے یہ ظاہر کیا ہے کہ حسن کو بھی فنا ہونا ہے۔ خواہ وہ چاند میں ہو یا شبنم میں ۔ موسم بہار ہو، یا عہد جوانی ، سب نا پائدار اور فنا ہونے والے ہیں ۔ فطرت کا یہی اصول ہے۔
خدا سے حُسن نے اک روز یہ سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا
تشریح:- ایک روزحسن نے خدا سے یہ سوال کیا کہ تو نے مجھے دنیا میں بھیجا مگر لازوال نہیں بتایا، یعنی حسن میں کمی آئے گی حسن برقرار نہیں رہے گا۔
ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا
شبِ درازِ عدم کا فسانہ ہے دنیا
شبِ درازِ عدم کا فسانہ ہے دنیا
خدا کی جانب سے جواب آیا کہ یہ دنیا ایک تصویر خانہ ہے، جس میں طرح طرح کی تصویریں لگی ہوئی ہیں ۔ تصویر یں اصل شے کاعکس ہوتی ہیں ، یہ دنیا تو فنا کی لمبی رات کی ایک کہانی ہے۔
ہوئی ہے رنگِ تغیر سے جب نمود اس کی
وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی
وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی
یہ دنیا تو تغیر کے رنگ سے ہی سامنے آتی ہے، یعنی دنیا کی اشیاء بدلتی رہتی ہیں۔ صبح کے بعد دوپہر دو پہر کے بعد شام اور پھر رات ۔ لڑکپن کے بعد جوانی اور جوانی کے بعد بڑھاپا، یہی تغیر یعنی تبدیلی کا رنگ ہے۔
کہیں قریب تھا ، یہ گفتگو قمر نے سُنی
فلک پہ عام ہوئی، اختر سحر نے سُنی
فلک پہ عام ہوئی، اختر سحر نے سُنی
چاند قریب ہی موجود یہ باتیں سن رہا تھا، اس نے آسمان پر سب کو بتا دیا۔ صبح کے ستارے نے بھی یہ بات سنی۔
سحر نے تارے سے سُن کر سنائی شبنم کو
فلک کی بات بتادی زمیں کے محرم کو
فلک کی بات بتادی زمیں کے محرم کو
صبح کے ستارے نے یہ سن کر صبح کو بتایا، اور صبح سے شبنم تک یہ بات پہنچی۔ اس طرح آسمان کی یہ بات زمین کے محرم (شبنم) تک پہنچ گئی ۔ شبنم کو زمین کا محرم( راز دار) اسلئے کہا ہے کہ وہ آسان سے زمین پر آئی ہے۔
بھر آئے پھول کے آنسو پیامِ شبنم سے
کلی کا ننھا سا دل خون ہو گیا غم سے
کلی کا ننھا سا دل خون ہو گیا غم سے
شبنم نے آسمان پر ہونے والی بات پھول کو سنا دی۔ شبنم کے بات سن کر پھول کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور کلی جوکھلی نہیں تھی، اس کا ننھا سا دل غم سے خون ہو گیا۔ یعنی اس پر افسردگی طاری ہو گئی۔
چمن سے روتا ہوا موسمِ بہار گیا
!شباب سیر کو آیا تھا ، سوگوار گیا
!شباب سیر کو آیا تھا ، سوگوار گیا
پھول اورکلی کی حالت دیکھ کر موسم بہار روتا ہوا رخصت ہوا۔ شباب باغ کی سیر کرنے آیاتھا۔ وہ خوش ہونے کے بجائے سوگوار ہوگیا۔
اقبال نے ان سات اشعار میں حسن سے بات شروع کر کے شباب پرختم کی ۔ اور یہ بتا دیا کہ ہر شے بدلتی ہے اور فنا ہوتی ہے۔ حقیقت حسن یہ ہے کہ وہ بھی دنیا کی دیگر اشیاء کی طرح فنا ہونے والا ہے۔
1. حسن نے خدا سے کیا سوال کیا؟
جواب: علامہ اقبال کی نظم حقیقت حسن کے اس شعر میں حسن خدا سے یہ سوال کرتا ہے کہ اس نے اسے لازوال یعنی ہمیشہ قائم رہنے والا کیوں نہیں بنایا۔ دراصل حسن اس شعر میں خدا سے یہ شکوہ کرتا ہے کہ اس نے اس نے اسے ختم ہوجانے والا کیوں بنایا کاش وہ اسے ہمیشہ قائم رہنے والا بناتا تاکہ وہ رہتی دنیا تک قائم رہتا اور ہمیشہ ہی اس کی قدر باقی رہتی۔
جواب: علامہ اقبال کی نظم حقیقت حسن کے اس شعر میں حسن خدا سے یہ سوال کرتا ہے کہ اس نے اسے لازوال یعنی ہمیشہ قائم رہنے والا کیوں نہیں بنایا۔ دراصل حسن اس شعر میں خدا سے یہ شکوہ کرتا ہے کہ اس نے اس نے اسے ختم ہوجانے والا کیوں بنایا کاش وہ اسے ہمیشہ قائم رہنے والا بناتا تاکہ وہ رہتی دنیا تک قائم رہتا اور ہمیشہ ہی اس کی قدر باقی رہتی۔
2. خدا اور حسن کے درمیان گفتگو کی خبر زمین کے لوگوں کو کیسے معلوم ہوئی؟
جواب: خدا اور حسن کے درمیان اس مکالمہ کی خبر زبان در زبان زمین تک آپہنچی۔ سب سے پہلے دونوں کے درمیان یہ گفتگو قمر یعنی چاند نے سنی۔ اور یہ گفتگو فلک پر پھیل گئی جسے صبح کے ستارے نے سنا۔ سحر نے تارے سے اس گفتگو کو سن کر اسے شبنم کو سنایا۔ شبنم کے اس پیغام کو سن کر پھول کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس بات کو سن کر کلی کا ننھا سا دل غم سے خون ہوگیا۔ اور موسم بہار کو اپنے لازوال ہونے کا اتنا غم پہنچا کہ وہ چمن کو چ؍وڑ کر چلا گیا۔اور وہ شباب جو چمن میں سیر کی غرض سے آیا تھا حسن کی بے بسی پی سوگوار واپس ہو گیا۔
جواب: خدا اور حسن کے درمیان اس مکالمہ کی خبر زبان در زبان زمین تک آپہنچی۔ سب سے پہلے دونوں کے درمیان یہ گفتگو قمر یعنی چاند نے سنی۔ اور یہ گفتگو فلک پر پھیل گئی جسے صبح کے ستارے نے سنا۔ سحر نے تارے سے اس گفتگو کو سن کر اسے شبنم کو سنایا۔ شبنم کے اس پیغام کو سن کر پھول کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس بات کو سن کر کلی کا ننھا سا دل غم سے خون ہوگیا۔ اور موسم بہار کو اپنے لازوال ہونے کا اتنا غم پہنچا کہ وہ چمن کو چ؍وڑ کر چلا گیا۔اور وہ شباب جو چمن میں سیر کی غرض سے آیا تھا حسن کی بے بسی پی سوگوار واپس ہو گیا۔
3. پھول، کلی، موسم بہار اور شباب کو سوگوار کیوں کہا ہے؟
جواب: شاعر نے پھول، کلی، موسم بہار اور شباب کو سوگوار اس لیے کہا ہے کہ یہ سب حسن اور خدا کے مکالمے کو سن کر غمزدہ ہو گئے تھے۔ حسن کی بے ثباتی نے ان سب کو غمزدہ کردیا تھا اس لیے کہ یہ باتیں ان سب کو براہ راست متاثر کرتی تھیں۔ یہ سب ہی حسن کے حامل اور حسن کے پرستار تھے۔ حسن کے لازوال ہونے نے ان سب کو متاثر کیا تھا۔
جواب: شاعر نے پھول، کلی، موسم بہار اور شباب کو سوگوار اس لیے کہا ہے کہ یہ سب حسن اور خدا کے مکالمے کو سن کر غمزدہ ہو گئے تھے۔ حسن کی بے ثباتی نے ان سب کو غمزدہ کردیا تھا اس لیے کہ یہ باتیں ان سب کو براہ راست متاثر کرتی تھیں۔ یہ سب ہی حسن کے حامل اور حسن کے پرستار تھے۔ حسن کے لازوال ہونے نے ان سب کو متاثر کیا تھا۔
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں |
0 comments:
Post a Comment