آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday, 22 November 2020

Mahol Bachaiye by Aslam Parvez NCERT Class 10 Nawa e Urdu

ماحول بچایئے
محمد اسلم پرویز
ایک عام آدمی کی نظر میں ماحولیاتی مسئلہ بھی ایک "سائنسی مسئلہ " ہے جس پر سائنس داں بحث کرتے رہتے ہیں۔ اس کے خیال میں یہ کوئی ایا مسئلہ نہیں ہے جس میں وہ دلچسپی لے یا جس پر غور وفکر کیا جائے۔ لیکن ذرا بتایئے کہ کیا ہم کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ آج کل کینسر کا مرض اتنی شدت کیوں اختیار کر گیا ہے، دل کے امراض کیوں عام ہورہے ہیں، لوگوں کو سانس کی تکلیف کیوں ہورہی ہے ، موسموں کا چلن کیوں بگڑ گیا ہے، برسات کی وہ رتیں اور جھڑیاں کیوں ختم ہوگئی ہیں، دریاؤں کا پانی گدلا اور کنوؤں کا پانی زہریلا کیوں ہو گیا ہے، تازہ ہوا کے وہ جھو نک کہاں چلے گئے کہ جو روح کو شاد کر جایا کرتے تھے، موتی کی طرح شفاف پانی کے وہ قدرتی چشمے کہاں کھو گئے جن کی تہہ کا حال اوپر سے ہی نظر آتا تھا۔ یقیناً یہ ایسے مسائل ہیں کہ جن کا تعلق ہم سے اور ہماری فنا و بقا سے ہے۔ اور اب اگر یہ کہا جائے کہ ان تمام مسلوں کا سیدھا واسطہ ہمارے بگڑتے ہوئے ماحول سے ہے تو کیا اب بھی آپ ماحولیاتی مسئلے کو سائنسی مسئلہ کہیں گے؟
قدرت نے دنیا کی ہر چیز کو ضرورت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ یہاں ہر ایک چیز دوسری چیز کو کسی نہ کسی طرح متاثر کرتی ہے۔ اس آپسی تعلق کو سمجھنے اور سمجھانے کا نام ” ماحولیاتی سائنس" ہے۔ زمانہ قدیم میں انسان اس تعلق سے نہ صرف بخوبی واقف تھا بلکہ اس کی زندگی ان قدرتی وسائل کے گرد گھومتی تھی ۔ وہ پانی کے ذخیروں کے پاس بستیاں قائم کرتا تھا تا کہ قدرتی پانی اسے حاصل ہوتا رہے۔ جنگلات سے وہ لکڑی، چارہ اور غذا حاصل کرتا تھا ۔ زمین وسیع تھی اور آبادیاں کم تھیں۔ رفتہ رفتہ انسانی آبادی بڑھنے لگی تو ان وسائل کی مانگ بڑھی، ان پر دباؤ بڑھا اور ان کے لیے آپس میں لڑائیاں شروع ہوئیں ۔ کسی ملک کے زرخیز اور سر سبز و شاداب علاقوں نے وہاں حملہ آوروں کو بلا لیا تو کسی ملک کے جانور اور چراگا ہیں دشمن کی نظروں میں آ گئیں، طاقتور قوتیں اور ممالک کمزوروں کے وسائل پر قابض ہوکر انھیں بے دریغ استعمال کرنے لگے۔ قدرتی وسائل پر دوسرا حملہ صنعتی انقلاب کے دوران ہوا۔ صنعتی انقلاب نے انسان کو مشینوں سے روشناس کرایا۔ مشینوں کی مدد سے اگر چہ پیدا وار میں زبردست اضافہ ہوا اور ایسا ضروری بھی تھا کیوں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات بڑھتی جارہی تھیں ۔ لیکن اس اضافہ نے خام مال کی مانگ اور بھی بڑھا دی۔ جہاں کا غذ بنانے کے کارخانے لگے تو وہ علاقے جنگلات سے پاک ہو گئے کیونکہ تمام لکڑی کاغذ بنانے کی نذر ہوگئی۔ جہاں کسی دھات سازی کا کام ہوا تو وہاں کان کنی اتنی ہوگئی کہ تمام زمین کھود کھود کر بنجر بنادی گئی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئی نئی تر قیات ہوتی گئیں اور انسانی زندگی پر مشینوں کی گرفت بڑھتی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو قدرتی توازن اس دنیا کے مکینوں کے در میان تھا، وہ برباد ہوگیا۔
انسان کے اردگرد اس کے اہم ترین ساتھی زمین، ہوا، پانی، جنگلات اور دیگر جاندار ہیں۔ یہی اس کا ماحول کہلاتے ہیں، ان سبھی کا آپس میں ایک دوسرے سے تعلق ہے۔ یعنی اگر زمین خراب ہوگئی تو انسان اس سے متاثر ہوگا اور اگر انسان کا رویہ زمین کے تئیں بگڑے گا تو زمین خراب ہوگی ۔ انسان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور مشینی دور کی آمد نے اس آپسی تعلق کو تہس نہس کردیا۔ کارخانوں اور فیکٹریوں نے نہ صرف یہ کہ خام مال کی شکل میں قدرتی وسائل کو بے تحاشہ استعمال کیا۔ بلکہ ان سے نکلنے والے زہریلے مادوں نے ہوا، پانی اور زمین کو زہر یلا کرنا شروع کر دیا۔ کارخانوں کی چمنیوں اور موٹر گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں اورگیسوں نے ہوا کو آلودہ کر دیا۔ جب فیکٹریاں اور گاڑیاں کم تھیں تو کم گیسیں فضا میں خارج ہوتی تھیں اور یہ تھوڑی سی مقدار بہت جلد ہوا میں گھل مل کر اتنی ہلکی ہوجاتی تھی کہ اس کا زہر یلا پن ختم ہو جاتا تھا۔ لیکن اب صورت حال مختلف ہے، اب اتنی زیادہ مقدار میں یہ گیسیں ہوا میں خارج ہوتی ہیں کہ ان کا پھیلنا اور تحلیل ہونا ناممکن ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام زہریلی گیسیں خطرناک حد تک ہوا میں جمع ہورہی ہیں۔ شہری اور صنعتی علاقوں کے اوپر کی گیسیں ایک غلاف کی مانند چھائی رہتی ہیں۔ ایسی ہوا میں جب ہم لوگ سانس لیتے ہیں تو یہ سب کیمیائی مادے ہمارے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے کارخانوں اور موٹر گاڑیوں سے خارج ہونے والی گیسوں میں زیادہ مقدار کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، نائٹرس آکسائیڈ ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی ہوتی ہے۔ ان سبھی کیسوں کی زیادتی ہمارے قدرتی ماحول کے لیے مضر ہے۔ ان میں سے کچھ گیسیں تیزاب کی شکل میں زمین پر آتی ہیں ۔ ایسی بارش کو "تیزابی بارش‘‘ کہا جاتا ہے اور کئی ممالک کو ان بارشوں کا تجربہ ہو چکا ہے اور ہورہا ہے۔ تیزابی بارش کی سب سے اہم وجہ سلفرڈائی آکسائیڈ گیس ہے۔ فضا میں اس گیس کی زیادتی خطرے کی گھنٹی ہے۔ کیونکہ تیز ابی بارشیں نہ صرف یہ کہ پیڑ پودوں اور جانداروں کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ ان سے عمارتیں اور دیگر سامان بھی متاثر ہوتا ہے۔
موٹر گاڑیوں سے نکلنے والی کثافت نے نہ صرف ہوا کو ہی متاثر کیا ہے بلکہ کارخانوں کا فضلہ ہوا کے علاوہ پانی اور زمین کو بھی خراب کرتا ہے۔ جب کارخانے کم تھے تو ان کا تھوڑا سا فضلہ پانی میں تحلیل ہو جاتا تھا لیکن جیسے جیسے کارخانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا پانی میں آلودگی بڑھتی گئی۔ آج یہ حال ہے کہ کسی بھی دریا کو ہم پوری طرح صاف اور صحت مند نہیں کہہ سکتے کسی کا پانی سڑ رہا ہے تو کسی کا پانی رنگین ہو گیا ہے، کسی میں گاد بہت ہے تو کسی کے پانی میں تیزابیت اتنی ہے کہ اس میں رہنے والے سبھی جاندار ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہوا اور پانی کی کثافت کو قابو میں رکھنے کے لیے قدرت نے بڑا اچھا انتظام کر رکھا ہے۔ زمین کے سینے میں پھیلے ہوئے جنگلات یہ کام بخوبی انجام دیتے ہیں ۔ ہوا کی آلودگی کو درخت اور دیگر پودے جذب کر لیتے ہیں نیز ان ہرے جانداروں سے خارج ہونے والی آکسیجن گیس ہوا کے زہریلے پن کو کم بھی کر دیتی ہے۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ جنگلات بھی انسان کی دسترس سےمحفوظ نہ رہے۔ کہیں پر رہائش کے لیے جنگلات کو صاف کیا گیا تو کہیں کھیتی باڑی کے لیے جنگلات کاٹے گئے یا پھر کارخانوں اور فیکٹریوں کو قائم کرنے کے لیے جنگلات کو ختم کیا گیا۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین کا یہ ہرا غلاف اترنے لگا جس کی وجہ سے آلودگی میں مزید اضافہ ہوا۔
................................ بھلا ہم میں سے کون ہے جسے اپنی صحت عزیز نہ ہو۔ تو پھر یہ بے حسی کیسی ہے ۔ ہم کیوں انتظار کریں کہ جب چیکنگ اور چالان شروع ہوں تبھی اپنی گاڑیوں اور کارخانوں کو درست کریں۔ اگر ہم کو اپنی صحت پیاری ہے اور اپنے ننھے منے مسکراتے بچوں کو صحت مند فضا مہیا کرنی ہے تو ہمیں یہ بے حسی اور لاپروائی چھوڑنی ہوگی ۔ ورنہ یقین کریں کہ ہم اپنے معصوم بچوں کو ورثے میں ایک ایسی زہریلی فضا اور ماحول دیں گے جس میں وہ بھی مسکرا نہ سکیں گے اور شاید اگلی نسل کی مسکراہٹ تو دیکھ بھی نہ سکیں۔ (تلخیص)
محمد اسلم پرویز
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز
(1954)
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کا شمار ملک کی اہم تعلیمی اور سائنسی شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم دہلی کی معروف درس گاہ اینگلو عربک اسکول اور اعلی تعلیم دہلی یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ نباتیات میں ایم ایس سی ، پلانٹ فزیولوجی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر ذاکر حسین دہلی کالج میں بحیثیت سائنس لیکچرار ملازمت کا آغاز کیا۔ 2005 سے 2015 تک اسی کالج کے پر نسپل رہے۔ اکتوبر 2015 سے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہیں۔
ڈاکٹر اسلم پرویز نے تعلیم اور سائنس کے شعبوں میں کئی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔ پاپولر سائنس کے فروغ نیز ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ اردوزبان میں سائنسی علوم کی ترویج و اشاعت میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ اسلامک فاؤنڈیشن فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کے ڈائرکٹر بھی رہے ہیں۔ 1994 سے ماہنامہ ”سائنس“ اردو زبان میں پابندی سے شائع ہورہا ہے۔ مختلف سائنسی اور ماحولیاتی موضوعات پر ان کی کئی کتا ہیں اور تقریباً چارسو تحقیقی مضامین ملک اور بیرون ملک کے اہم جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔

غور کرنے کی بات:
اس مضمون میں مصنف نے معاشرے کے ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آج جانے یا انجانے ہم اپنے ماحول کو بگاڑ رہےہیں اور اپنے لیے بہت سے خطرات پیدا کر رہے ہیں مگر ہم میں سے اکثر اس سے بے خبر ہیں۔
سوالوں کے جواب لکھے:
1۔ "صنعتی انقلاب‘‘ سے ہمارے قدرتی وسائل کس طرح متاثر ہوئے ہیں؟ بیان کیجیے۔
2۔ ' تیزابی بارش'  کسے کہتے ہیں؟ اس کے اسباب پر روشنی ڈالیے؟
3۔ ہمیں اپنے ماحول کو بچانے کے لیے کیا کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
4۔ ماحول بچانا کیا صرف سائنس دانوں ہی کا کام ہے یا ہر شہری کا۔ مختصراً لکھیے۔
عملی کام :
اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ماحول بچاؤ تحریک شروع کریں ۔ لوگوں کو پیڑ پودے لگانے ، آلودگی کو کم کرنے ، گاڑیوں اور کارخانوں کی زہریلی گیسوں کو دور کرنے کے لیے تا کید کریں ۔ ایک پوسٹر بنائیے جس پرمختلف رنگوں سے لکھیے :
" بچوں کی مسکان بچائیں
آؤ   ہم   ماحول سجائیں "

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری