ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیاکیا
یاس یگانہ چنگیزی
ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا
ہوس نے شوق کے پہلو دبائے ہیں کیا کیا
اسی فریب نے مارا کہ کل ہے کتنی دور
اس آج کل میں عبث دن گنوائے ہیں کیا کیا
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
خوشی میں اپنے قدم چوم لوں تو زیبا ہے
وہ لغزشوں پہ مری مسکرائے ہیں کیا کیا
خدا ہی جانے یگانہؔ میں کون ہوں کیا ہوں
خود اپنی ذات پہ شک دل میں آئے ہیں کیا کیا
یاس یگانہ چنگیزی
(1883 - 1956)
مرزا واجد حسین نام، پہلے یاس تخلص کرتے تھے، بعد میں یگانہ ہو گئے۔ ابتدا میں
مولوی سید علی خاں بیتاب سے اصلاح سخن لیتے تھے۔ بعد میں شاد عظیم آبادی کے
شاگرد ہو گئے ۔ 1904 میں کلکتہ گئے، وہاں بیماری نے طول کھینچا تو علاج کے لیے
لکھنؤ آئے لکھنؤ ہی میں شادی کی اور یہیں بس گئے لکھنؤ کے زمانہ قیام میں کئی
ہم عصروں سے ان کے معرکے رہے۔ لکھنؤ میں غالب کے کلام کی مقبولیت کے باعث یگانہ
مرزا غالب کے خلاف ہو گئے ۔ خود کو غالب شکن کہتے تھے۔
ان کی شخصیت میں خود پسندی بہت تھی۔ آزاده روی ان کے مزاج کی خاصیت تھی ۔ کلام
میں قوت اور زور کے ساتھ ساتھ تلخی بہت ہے۔ ان کی شاعری میں ایک خاص طرح کی
انفرادیت کا رنگ حاوی ہے۔ بول چال کے ایسے الفاظ بھی جو ادبی زبان کا حصہ نہیں
ہیں، معنی میں تیزی اور تندی لانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ان کی رباعیاں بھی
مشہور ہیں ۔ کلام کے مجموعے ” آیات وجدانی‘‘ اور" گنجینہ" کے نام سے شائع ہوئے۔
ان کا کلیات اردو کے نامور محقق مشفق خواجہ نے مرتب کر کے شائع کیا ہے۔
0 comments:
Post a Comment