دنیا میری بلا جانے، مہنگی ہے یا سستی ہے
فانی بدایونی
دنیا میری بلا جانے، مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے
آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے
جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں
آگے مرضی گاہک کی، ان داموں تو سستی ہے
جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا
جب بھی دنیا بستی تھی، اب بھی دنیا بستی ہے
آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے، کھلتی ہے نہ برستی ہے
دل کا اجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے
فانیؔ! جس میں آنسو کیا، دل کے لہو کا کال نہ تھا
ہائے وہ آنکھ اب پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے
فانی بدایونی
(1879 - 1941)
شوکت علی خاں نام، پہلے شوکت اور بعد میں فانی تخلص اختیار کیا۔ اتر پردیش کے
ضلع بدایوں میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد پولس کے محکمے میں انسپکٹر تھے۔ فانی نے
1897 میں انٹرنس کا امتحان پاس کیا۔ 1901 میں بریلی کالج بریلی سے بی۔ اے۔ پاس
کرنے کے بعد ملازمت اختیار کی۔ کچھ عرصے تک مدرس رہے، بعد میں ملازمت ترک کر دی
اور 1908 میں ایم ۔ اے۔ او کالج علی گڑھ (موجودہ مسلم یونیورسٹی) سے ایل ایل ۔
بی۔ کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے بعد لکھنؤ، آگرہ، اٹاوہ، بریلی اور بدایوں میں
وکالت کی، لیکن فانی کو وکالت سے دل چسپی نہ تھی۔ اس لیے اس پیشے میں انھیں
کامیابی نصیب نہ ہوئی ۔ 1932 میں مہاراجہ کشن پرشاد کی دعوت پر حیدر آباد پہنچے
۔ مہاراجہ کے دربار سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ وہ حیدر آباد کے ایک سرکاری
اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہو گئے۔ فانی کے آخری ایام تنگ دستی اور پریشانی میں گزرے۔
ان کا انتقال حیدر آباد میں ہوا۔ فانی کا یہ مقطع ان کی زندگی پر صادق آتا ہے
فانی ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں ہے گورو کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا
فانی نے پہلی غزل 1890 میں
یعنی گیارہ سال کی عمر میں کہی۔ ان کے والد شاعری کے خلاف تھے۔ اس لیے فانی چھپ
کر شعر کہتے تھے۔ زیادہ تر کلام تلف ہو گیا، جو کچھ بچا وہ " باقیات فانی‘‘
(1926) کے نام سے شائع ہوا۔ بعد میں دیگر اور مجموعے" عرفانیات فانی" (1939)
اور "وجدانیات فانی (1940) کے نام سے منظر عام پر آئے۔
فانی کا شمار اردو کے ممتاز غزل گو شعرا میں ہوتا ہے۔ شاعری میں درد وغم کے
مضامین کی کثرت کے باعث فانی کو یاسیات کا امام کہا گیا ہے۔
تشریح:
دنیا میری بلا جانے، مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح:- فانی کی مشہور غزل کا مطلع ہے۔ فانی بدایونی کے کلام میں موت اور دردوغم کے مضامین کی فراوانی ہے۔ اس مطلع میں موت کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ان کی خودداری صاف ظاہر ہوگئی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ دنیا کتنی مہنگی یاسستی ہے۔ مجھے کوئی چیز مفت نہیں چاہے، یہاں تک کہ موت بھی مفت میں نہیں لوں گا۔ جب زندگی دوں کا تبھی موت ملے گی۔
آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح:- فانی کہتے ہیں کہ ہم نے آبادی بھی دیکھی ہے اور ویرانے بھی ۔ ویرانے آبادی میں بدل جاتے ہیں اور آبادی ویران ہو جاتی ہے۔ مگردل ایسی نرالی بستی ہے جو اجڑ جائے تو پھر نہیں بستی، یعنی عشق ایک مرتبہ ہوتا ہے اور اس عشق میں عاشق ناکام ہو جائے تو پھر عاشق کی روتے روتے گزرتی ہے اس دل میں دوبارہ کوئی نہیں بستا۔
جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں
آگے مرضی گاہک کی، ان داموں تو سستی ہے
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- سچا عاشق محبوب کی ایک نظر کا محتاج ہوتا ہے محبوب اسے نظر بھر کر دیکھ لے تو وہ اپنی جان بھی قربان کرنے کیلئے تیار رہتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں گاہک سے مراد محبوب ہے۔ عاشق نے اپنی جان کی قیمت محبوب کی ایک نظر رکھی ہے اور یہ قیمت انتہائی کم ہے۔
جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا
جب بھی دنیا بستی تھی، اب بھی دنیا بستی ہے
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- فانی بحیثیت عاشق کہہ رہے ہیں کہ محبوب کے بغیر یہ پوری دنیا سونی ہوگئی اور اسے یاد کر کے روتے روتے آنکھوں کا برا حال ہو گیا۔ یہ دنیا پہلے بھی تھی اور یہی دنیا اب بھی ہے لیکن جب محبوب سامنے تھادنیا پر رونق نظر آتی تھی اور اب محبوب کے نہ ہونے سے دنیا سونی ویران ہوگئی ہے۔
آنسو تھے سو خشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے، کھلتی ہے نہ برستی ہے
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- فانی نے اس شعر میں گھٹا کی اس کیفیت سے فائدہ اٹھایا ہے جب آسمان پر سیاہ بادل چھا جاتے ہیں مگر برستے نہیں اور نہ برسنے والے بادلوں کی وجہ سے فضا بوجھل ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ مجبوب کیلئے آنسو خشک ہو گئے ۔ جی چاہتا ہے کہ کھل کر روؤں لیکن اب آنسو ہی نہیں لگتا ہے کہ دل پر ایسی گھٹا چھائی ہے کہ نہ تو کھلتی ہے اور نہ بارش ہوتی ہے۔ رونے کی خواہش کے باوجود آنکھ سے آنسو نہیں آتے۔ بستی ہے یعنی اس بسنے میں وقت لگتا ہے اور اسے اجاڑ نے میں اتنا وقت صرف نہیں ہوتا۔
دل کا اجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں بستے بستے بستی ہے
سیاق وسباق:۔ اس غزل کے اشعار فانی بدایونی کی غزل سے لئے گئے ہیں۔
تشریح :- اس غزل کے مقطع میں فانی کہہ رہے ہیں کہ ایک وقت تھا جب ہماری آنکھوں میں آنسوؤں کی بہتات تھی اور دل کے لہو کی بھی کمی نہیں تھی۔ یعنی جب آنسو نہیں نکلتے تھے تو ان کی جگہ دل کا خون آنسو بن کر ان آنکھوں سے بہتا تھا لیکن اب روتے روتے یہ حال ہو گیا ہے کہ اب آنکھوں میں دو قطرے آنسو بھی نہیں آتے ، رونے کی کثرت کی وجہ سے آنکھیں خشک ہوگئی ہیں۔
سوالوں کے جواب لکھیے:
1۔ شاعر نے دل کو نرالی بستی کیوں کہاہے؟
جواب:کیونکہ دل ایسی بستی ہے کہ اجڑنے کے بعد دوبارہ نہیں بستی جبکہ دنیا میں ایسی ان گنت بستیاں
ہیں جو ویران ہونے کے بعد پھر بس گئیں مگر دل کے ساتھ یہ معاملہ نہیں اسلئے دل نرالی دنیا ہے۔
2۔"ہستی" کیا ہستی ہے؟ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟
جواب:"ہستی" کے پہلے معنی ہیں وجود، زندگی اور دوسرے معنی ہیں 'مجال، طاقت، حیثیت، قیمت مصرعے کے اس حصے سے مراد یہ ہے کہ زندگی کی کیا مجال، زندگی کی کیا حیثیت ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں زندگی کو انمول شے نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک زندگی کی کوئی حیثیت نہیں۔
3۔ بستی بسناکھیل نہیں، بستے بستے بستی ہے، اس مصرعے میں پہلے لفظ بستی اور دوسرے لفظ
بستی کے فرق کو واضح کیجئے۔
جواب:بستی کے معنی آباد ہونے کا عمل ہے۔ یعنی پہلا لفظ بستی کے معنی آباد جگہ یا گاؤں قصبے کے ہیں اور دوسرے لفظ بستی کے معنی آباد ہونے کاعمل ہے یعنی پہلا لفظ اسم ہے اور دوسرا لفظ فعل ( کام کا کرنا یا ہونا ) ظاہر کرتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment