آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Monday, 31 May 2021

Mere Qabil e Tahsin Abba

 


نام تحسین عثمانی اسم با مسمیٰ
کشادہ پیشانی،الجھے ہوئے بال،کھڑی ناک، صاف و شفاف چہرہ یہ ہیں میرے پاپا۔ مونچھیں کبھی بڑھ کر ہونٹوں تک آجاتی تھیں کبھی سلیقے سے تراش دی جاتی تھیں۔ آنکھیں ہر وقت کچھ سوچتی رہتی تھیں۔ میرے والد پیشے سے صحافی تھے اور ان کا دماغ شاید ہر وقت کچھ نہ کچھ تعمیری فکر میں لگا رہتا تھا۔ سماج میں بکھری ہوئی غریبی اور بدحالی اور ملت کا انتشار ہر وقت ان کے ذہن پر چھایا رہتا تھا اور وہ اس کے حل  اور سماج میں بیداری پیدا کرنے  کے لیے اپنے قلم کو مصرف میں لانے پر غور کرتے رہتے تھے۔ ان کا قلم جب لکھنے پر آتا تھا تو ایسے ایسے باریک نکتوں پران کی نگاہ جاتی تھی کہ قاری دم بخود رہ جاتا اور اس کی سوچ میں ایک نمایا مشبت تبدیلی پیدا ہوتی۔ 
یہی وجہ تھی کہ صحافتی  دنیا میں انہیں  ایک خاص مقام حاصل تھا۔ غور و فکر ان کی شخصیت کا حصہ بن چکا تھا۔ ہم بہنیں جب بھی ان سے کچھ پوچھنا چاہتے تھے وہ فوری کسی سوال کا جواب نہیں دیتے۔ وہ ایک لمحہ کو کچھ سوچتے تھے اور پھر اس سوال کو کسی دوسرے وقت کے لیے ٹال دیتے تھے۔ ایسا نہیں کہ وہ ہمارے سوالوں کا جواب دینا نہیں چاہتے بلکہ اُن کی منشا یہ ہوتی کہ کسی بھی سوال کا تشفّی بخش جواب دیں۔ 
اور پھر جب اپنی سوچ سے آزاد ہوتے تھے تو پوچھے گئے سوال کا مفصل جواب سمجھاتے تھے۔
وہ اپنی بیٹیوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ ان کی یہ کوشش رہتی تھی کہ ان کی ذات سے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ وہ اپنی تینوں بیٹیوں کو ایک نظر سے دیکھتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ کسی کو ایک دوسرے سے شکایت نہ ہو۔ اپنی بیٹیوں کی فرمائش پوری کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے حد تو یہ تھی کہ عمر کا لحاظ کیے بغیر صرف اس لیے کہ ہم ایک دوسرے کو کم نہ سمجھیں تینوں کو ایک ایک موبائل دے رکھا تھا ۔ ہاں وہ اس بات کا دھیان ضرور رکھتے تھے کہ ہم اس کا منفی استعمال نہ کریں۔
میری بڑی بہن نے تو اپنے بورڈ کے امتحان میں ان سہولتوں کا بھرپور استعمال کیا اور بورڈ میں اپنے نمبرات حاصل کرکے یہ ثابت کیا کہ میرے پاپا کی سوچ غلط نہیں تھی کہ بچوں کو سہولتیں دی جائیں اور ان کی اچھی تربیت کی جائے تو نتائج ہمیشہ شاندار ہوتے ہیں۔
 میرے پاپا ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تم کبھی یہ مت بھولو کہ تم کون ہو،کیا ہو۔اگر اپنے باپ اور دادا کو نظر میں رکھوگی تو کبھی کوئی غلط کام نہیں کرو گی۔

5 comments:

  1. اسلام علیکم ورحمت اللہ و بر کا تہ یہ خون جگر سے لکھی صداقت پہ مبنی تحریر کو پڑھ کر دل پہ جو کچھ گزرا وہ خوشی اور غم کا سنگم بن کر رہ غم کی وجہ اپنے تحسین بھائ جان کو مرحوم لکھتے وقت کلیجہ کا منہ کو آجا نا ھے جبکہ خوشی یا دل کا اطمنان اس سے کہ اپنے پیچھے تین بیٹیوںکی کی فوج چھوڑی جو دنیا کو کیا دینے والی ھیں کی بانی دکھائی اللہ جہاں میرے تحسین بھئ جان کے درجات بلند کریں وہیں انکے ان تین ھیروں کو اس آئنے کو تقویت دیکر دنیا والوں کو ھر دن ایک نیا پیغام دینے والا بنائے
    آمین یا رب العالمین

    ReplyDelete
  2. شکستہ دل و دماغ کچھ بھی لکھنے سے قاصر ہے اللہ اللہ ۔

    ReplyDelete

خوش خبری