انٹرویو ایک صحافی سے
2018
تحسین عثمانی رسالہ اسپین کے مدیر ہیں۔یہ رسالہ امریکی سفارت خانے سے شائع ہوتا ہے ۔آپ نے دہلی میں روزنامہ عوام سے اپنی صحافتی ز ندگی کا آغا زکیا اور دہلی کے کئی دیگر بڑے اخبارات میں بھی صحافتی خدمات انجام دیں۔آپ نے روز نامہ عوام،ہندوستان ایکسپریس اور خبررساں ایجنسی یو۔این۔آئی میں کام کیا۔ آپ نے صحافتی امور کے لئے بیرونی ممالک کے دورے بھی کئے۔وہ ہفت روزہ ویوزٹائمز کے پبلیشراور مدیر بھی رہے۔پیش ہیں ان سے لئے گئے ایک انٹرویو کے اقتباسات۔
سوال۔آپ کو صحافت کا شوق کیسے ہوا؟
جواب۔صحافت کا شوق مجھے بچپن سے تھا۔اسکول سے ہی مجھے مضامین لکھنے کا شوق رہا اور جب میں آٹھویں کلاس میں تھا تب میں نے مضمون نویسی کے ایک مقابلہ میں حصہ لیا جس میں ضلع بھر کے تمام اسکولوں کے طلبہ نے شرکت کی۔مقابلہ کا موضوع تھا"اقبال کی وطنی شاعری"اس میں مجھے اول انعام حاصل ہوا۔جب میں دلی آیا تو یہاں رہنے کے لئے کچھ کام کرنا ضروری تھا۔دہلی میں گزر بسر آسان نہیں تھی اور مجھے رہنے کے لئے نوکری کی ضرورت تھی لکھنے پڑھنے کا شوق شروع ہی سے تھا اس لیےاعلیٰ تعلیم جاری رکھنے کے لیےمیں نے یہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایم۔اے میں ایڈمیشن لیا اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ نوکری کا سلسلہ بھی جاری رکھا یہ میرا شوق بھی تھا اور میری ضرورت بھی۔
سوال۔اگر آپ صحافی نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
جواب۔صحافت میرا شوق تھا اور اس شوق نےمجھے کسی اور جانب جانے نہیں دیا۔ورنہ اگر میں صحافی نہیں ہوتا تو آج میں کسی کالج میں لیکچرر اور پروفیسر ہوتا لیکن صحافت کا شوق اس درجہ غالب تھا کہ میں نے مدرسی کا پیشہ چھوڑ کر صحافت کےمیدان میں جانے کو ترجیح دی۔صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جس میں آپ ہمیشہ مظلوموں اور کمزوروں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور اردو صحافت نے ہمیشہ ہی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی۔حق کے لئے آواز اٹھانے کا جو جذبہ تھا اس نے مجھے ہمیشہ اس بات کے لئے مجبور کیا کہ میں اپنے قلم سے ان تمام لوگوں کی آواز بنوں جو کہ اپنے حق سے محروم ہیں۔
سوال۔آپ کی نظر میں ایک اچھا صحافی بننے کے لئے کن باتو ں کا ہونا ضروری ہے؟
جواب۔ایک اچھا صحافی وہی ہوسکتا ہے جس کے دل میں کمزوروں کی محبت ہو وہ کمزوروں کے حق کے لئے آواز اٹھانے کا جذبہ اپنے دل میں رکھتا ہو۔وہ سماج میں کچھ بہتر ہوتا دیکھنا چاہتا ہو۔وہ صرف حکومت کی مخالفت نہ کرے بلکہ اس کی غلطیوں کی نشان دہی بھی ضرور ی سمجھے ۔اس لئے ایک اچھے صحافی کو حکومت کی کمزوریوں پر اپنی نظر رکھنی چاہئے اور اس کی نشان دہی کے ساتھ اس کے حل کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہئے۔ سماج کے لئے جو بہتر ہو اسے اپنی تحریر میں لانا چاہئے۔ ایک صحافی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جس زبان میں صحافت کرتا ہے اس زبان پر اسےعبورحاصل ہو۔ آج کل دیکھا یہ جا رہا ہے کہ جو صحافی ہیں وہ اپنے سبجیکٹ میں کمزور ہیں اس لئے جو اخبارات ہیں اس میں ایسی غلطیاں نظرآتی ہیں جو افسوسناک ہیں۔
سوال۔آپ اپنے کچھ نمایا ںکام بتائے؟
جواب۔بچپن سے مجھے آن لائن یعنی انٹرنیٹ پہ کام کرنے کا شوق رہا اس لئے میں اپنے شروعاتی دور میں جب کہ انٹرنیٹ کا آغاز تھااور اردو اخبارات اس سے آشنا نہیں تھےمیں نے انٹرنیٹ پر ویب سائٹ بنانے کا کام کیا۔جو ہندوستان میں اردو اخبارات کے لیے ایک مشعل راہ بنی تھی۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر مکمل طور سے دسترس رکھنے والے صحافیوں کی جو کھیپ تھی ان میں شاید میں پہلا صحافی تھا جو دوسروں کی بہ نسبت اس میدان میں کہیں زیادہ ممتاز تھا۔اور یہی سبب ہے کہ میں آج اس مقام پر ہوں۔
سوال: اردو ادب میں آپ کی پسندیدہ شخصیت کون سی ہے؟
جواب: میری پسند ایک ایسی شخصیت ہے جسے ادب والوں نے ادب کا حصہ قبول کرنے میں کنجوسی سے کام لیا۔ میں جاسوسی ادب کا دلدادہ ہوں اور میں نے ابن صفی کو اپنے بچپن سے ہی خوب پڑھا۔ اور آج جو زبان ہم بولتے ہیں یا لکھتے ہیں اس میں کم از کم میرے فن کی تخلیق میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ایک اچھے طالب علم کو چاہیے کہ وہ خوب مطالعہ کرے۔ اس لیے کہ آپ کامطالعہ جتنا وسیع ہوگا آپ کا قلم اتناہی تیز رفتار ہوگا۔آپ کے پاس الفاظ کا ایک خزانہ ہوگا جن کو آپ الگ الگ مواقع پر استعمال کر سکیں گے۔
سوال: آپ کی نظر میں ایک اچھے طالب علم کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: ایک طالب علم کو چاہیے کہ وہ بہترین ادب پڑھے، اصلاحی ادب پڑھے۔خاص طور سے لڑکیوں کو مطالعہ میں اصلاحی کتابوں پر زیادہ زور دینا چاہیے۔دینی کتابیں ،اسلامی حکایات، اسلامی قصے، اسلامی طرز زندگی ،اسلامی طرز رہائش اور ساتھ ہی ساتھ انہیں چاہیے کہ ان پرانی لکھنے والی خواتین کے ناولوں کا مطالعہ کریں جو اپنے عہد کی سماجی زندگی کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔
سوال: آپ نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ کن کاموں میں صرف کیا؟
جواب: میری زندگی کا ایک بڑاحصہ پڑھنے لکھنے میں گزرا۔ میں نے سیکڑوںمضامین لکھے۔ اخبارات میں کام کرتے ہوئے دن کیا ہوتا ہے اور رات کیا یہ پتہ ہی نہیں چلا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ میں ڈھائی تین بجے رات میں اخبار مکمل کرکے جب کوئی سواری نہیں ملتی تو حضرت نظام الدین سے اوکھلا پیدل گھر آتا۔میرے ساتھ میری ہی طرح کے کچھ اور دیوانے ہوتے جو اسی اوکھلا کے علاقے میں رہتے ہیں۔وہ سب لوگ وہ تھے جن کو تنحواہ کی فکر نہیں تھی۔ آج کے نظریے سے دیکھا جائے تو سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنی کم تنخواہ میں اتنازیادہ وقت ہم کس طرح دیا کرتے تھے۔آج لوگ ۸ گھنٹے کی ڈیوٹی کرکے اس سے فاضل کام کرنا نہیں چاہتے لیکن ہم بغیر کسی اوور ٹائم کےصرف اور صرف اپنے شوق کی خاطر بہترین سے بہترین اخبار نکالنے کی کوشش کرتے۔
سوال: آپ نے اپنے اہم فیصلوں میں کس کس سے صلاح مشورہ کیا؟
جواب: زندگی کے ہر فیصلے میں میری سب سے بڑی صلاح کار اور مددگارمیری امی تھیں۔ انہوں نے آگے بڑھنے میں میری ہر طرح سے مدد کی اور میری کامیابی میں جو سب سے بڑا حصہ ہے وہ میرے والد کی دعاؤں کا ہے۔اگر آج ان کی دعا ئیں شامل حال نہیں ہوتی تو میں اس مقام پر نہیں ہوتا۔عملی طور میری امی نے نہ صرف اپنے مفیدمشوروں سے نوازا بلکہ مالی طور پر میرا ہر طرح سے ساتھ دیا۔جب دلی میں رہنا دشوار تھا تو ان کے بھیجے ہوئے روپے ہی میرا سہارا تھے۔اور اگر یہاں میں اپنے بھائیوں کا ذکر نہ کروں تو یہ نا انصافی ہوگی۔ میری بیگم بھی میرے مشوروں میں شامل رہیں اور آہستہ آہستہ اللہ کے فضل وکرم اور اپنی بیٹیوں کی قسمت سے ہم آج اس مقام پر ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نام بھی دیا،عزت بھی دی اور شہرت بھی۔
صحبہ عثمانی
وہ صحافی وہ محقق خادمِ اردو زباں
ReplyDeleteوہ مجاہد وہ مدبّر وہ سراپا دین تھا
~ شبلی فردوسی
😭😭
(آہ ۔۔۔ میرے تحسین بابو)
زبان قاصر ہیں کچھ بھی بولنے سے الفاظ حلق میں منجمد ہیں گویا زندگی کا بیش قیمتی سرمایہ مفقود ہو گیا ہو
ReplyDeleteبہت عمدہ
ReplyDelete💔💔💔💔
Allah rabbaul ezzat ki bargah me dua h ki mere chchajan ko jannatul firdaus me aala muqam ata kre. Wo ek chiragh ke trh the apne ekhlaq or kirdar se ek apna maqam hasil kya tha. Ek sher yad aarha h unke liye
ReplyDeleteتم ہو ایک زندہ جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤگے
Aameen
Delete💔💔
ReplyDelete