آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday, 3 July 2022

Allah Ke Khalil: Hazrat Ibrahim Alaihissalam ke Halat e Zindagi (Day-3)

 اللہ کے خلیل
حضرت ابراہیم علیہ السلام 
کےحالاتِ زندگی

ستاروں کی پوجا 
بت پرستی کے علاوہ، یہ لوگ کواکب پرستی بھی کرتے تھے اور یہ پرستش اس عقیدے کی بنیاد پر تھی کہ یہ لوگ بتوں کی طرح کواکب (ستاروں) کے بارے میں بھی یقین رکھتے تھے کہ موت و حیات، نفع و نقصان وغیرہ میں، ان کے اثرات کو دخل ہے، اور یہ اثر ان کا ذاتی وصف ہے ، اس لیے کواکب کی بھی خوشنودی حاصل کرنا ضزوری ہے ، جو ان کی پرستش کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اصنام پرستی کی طرح، ان کے اس باطل عقیدے کی بھی، بڑی خوبی کے ساتھ تردید کی، اس کی وضاحت سورۂ انعام کی متعدد آیات میں بڑے حکیمانہ استدلال کے ساتھ کی گئی ہے۔
سورهٔ انعام کی ان آیات سے بظاہر یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ کواکب پرستی کی وہ تمام کیفیات، جن کا ان آیات سے اظہار ہوتا ہے، حضرت ابراہیمؑ پر طاری ہوئی تھیں، لیکن حقیقت اس کے بالکل خلاف ہے جس طرح حضرت ابراہیمؑ   کا دامنِ عصمت اصنام پرستی سے پاک ہے، اسی طرح کواکب پرستی سے بھی۔ یہ حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ  نے مدّت العمر نہ کبھی بت پرستی کی نہ کواکب پرستی۔۔۔۔۔۔ بلکہ یہ انداز بیان قوم کی کواکب پرستی کو غلط ثابت کرنے کے لیے، قوم کے ایک فرد کی حیثیت سے، قوم کی اس روش کی لغویت کے اظہار کے لیے اختیار کیا، جو اس وقت کی ہیجانی کیفیت کے پیشِ نظر، مخاطب کو متوجہ کرنے کے لیے بڑا جاذب توجہ نفسیاتی انداز تخاطب تھا۔
غیر خدا کی پرستش کو باطل ثابت کرنے کے لیے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس طرح کواکب پرستش کو غلط ثابت کر دکھایا بالکل یہی صورت اصنام پرستی کے معاملے میں بھی اختیار فرمائی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کواکب کے معاملے میں قولی استدلال تھا اور اصنام (بتوں) کے معاملے میں عملی، وہ اس صورت سے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے دیکھا کہ دلائل سے قوم متاثر نہیں ہوئی تو آپ نے استدلال کا ایک ایسا پہلو اختیار کیا جس کی صداقت کا ہر شخص کو اقرار کرتے ہی بن پڑے اور آپ نے اپنے اس انوکھے استدلال کے بارے میں اجمالی طور پر، اپنی قوم کو پہلے سے اطلاع بھی دے دی.
عملی استدلال 
 آخر ایک موقع ایسا آہی گیا جس میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اپنے عملی استدلال کو عملی جامہ پہنانے کا موقع مل گیا۔ یہ موقع تھا ایک مذہبی جشن کا، جس میں شرکت کے لیے آبادی کے ہر فرد کو جانا ضروری تھا، وقت مقررہ پر سب چلنے لگے تو حضرت ابراہیمؑ  سے بھی چلنے کے لیے کہا گیا آپ نے علالت کا عذر کیا اور قوم کے ساتھ نہیں گئے۔
اب جب کہ ساری قوم مع بادشاہ اور کاہنوں کے آبادی سے نکل کر میلے کی دلچسپیوں میں مصروف تھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی تدبیر کے بروے کار لانے کا موقع ہاتھ آگیا سب سے پہلے بڑے دیوتا کے مندر میں جا پہنچے، دیکھا کہ دیوتاؤں کے سامنے انواع و اقسام کے پھل اور میوے وغیرہ کے چڑھاوے رکھے تھے، آپ نے بطورِ طنز ان بتوں کو خطاب کیا کہ ”سب رکھا ہوا ہے کھاتے کیوں نہیں؟ ارے تمھیں کیا ہوگیا بولتے کیوں نہیں؟ “ اس کے بعد ان سب کو توڑ ڈالا، صرف بڑے بت کو رہنے دیا، تاکہ قوم اپنے عقیدے کے مطابق بڑے بت سے استفسار حال کر سکے۔ پھر آپ واپس چلے گئے۔
میلے سے واپس آکر قوم مندر میں داخل ہوئی اور بتوں کا حال دیکھ کر سخت برہم ہوئی۔ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کس کا کام ہو سکتا ہے؟جن لوگوں سے آپ اجمالاً اپنی اس تدبیر کی طرف اشارہ کر چکے تھے، وہ بول اٹھے کہ یہ کام اس شخص کا ہوسکتا ہے جس کا  نام ابراہیمؑ ہے۔
کاہنوں اور سرداروں کو جب اس کا علم ہوا، غصّے سے آگ بگولا ہوگئے اور فوراً حضرت ابراہیمؑ کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ حضرت ابراہیمؑ  گرفتار کرکے لائے گئے، آپ کے سامنے آتے ہی سوال کیا گیا کہ یہ ہمارے دیوتاؤں کے ساتھ یہ سلوک تم نے کیا ہے؟
حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اسی موقع ہی کے لیے تو یہ تدبیر کی تھی یہ دیکھ کر کہ ساری قوم موجود ہے، اس کے پیشواؤں نے جس غلط عقیدے میں اسے پھنسا رکھا ہے، آج اس کے غلط ثابت کرنے کا بہترین موقع ہاتھ آگیا ہے۔ آپ نے سرداروں کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ ”یہ سب بڑے دیوتا کی حرکت ہے، اپنے اطمینان کے لیے، اپنے ان دیوتاؤں سے دریافت کر لو جن کے ساتھ تمھارے بڑے دیوتا نے یہ سلوک کیا ہے؟ “۔
آپ کے اس جواب کا کوئی جواب نہ بادشاہ کے پاس تھا، نہ کاہنوں کے پاس، نہ سرداروں کے پاس، نہ قوم کے پاس، ندامت سے سب کے سر جُھکے ہوئے تھے۔ قوم کی سمجھ میں آج واضح طور پر وہ بات آگئی تھی، جس کا اس سے پہلے وہ تصوّر تک بھی نہ کر سکتے تھے اور مجبوراً سب کو اقرار کرتے ہی بن پڑا کہ ”ان دیوتاؤں میں بولنے کی سکت نہیں۔ یہ تو سب بےجان مورتیاں ہیں۔ “
نصیحت کا موثّر انداز
حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے قوم کے اس ثاثّر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نصیحت کا بڑا ہی موثر انداز اختیار فرمایا، جسے قرآن یوں نقل کرتا ہے۔
”لوگو! خدائے بزرگ و برتر کو چھوڑ کر، تم ان چیزوں کی پرستش میں لگے ہوئے ہو جو نہ تم کو نفع پہنچا سکتی ہیں، نہ نقصان۔ تم پر بھی افسوس ہے اور تمھارے ان معبودوں پر بھی، جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟“
”پس وہ جمگھٹ کی صورت، ابراہیم کے آس پاس جمع ہوگئے تو ابراہیمؑ نے کہا، کیا جن بتوں کو اپنے ہاتھ سے گھڑتے ہو، پھر انھیں کو پوجتے ہو، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا ہے اور ان کو بھی جن کو تم بناتے ہو۔“
ضِد اور ہٹ دھرمی 
اس مشفقانہ نصیحت کا یہ اثر ہونا چاہیے تھا کہ وہ اصنام پرستی کو چھوڑ کر خدا پرستی کی راہ اختیار کر لیتے لیکن ان کی نفس پرستیوں نے اس سیدھی راہ کو اختیار نہ کرنے دیا اور حسب سابق اپنی عداوت و دشمنی کی رفتار کو تیز سے تیز تر کردیا اور طے کیا کہ ابراہیمؑ کی گستاخی کی سزا یہ ہے کہ انھیں زندہ جلا دیا جاۓ۔

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری