اللہ کے خلیل
حضرت ابراہیم علیہ السلام
کےحالاتِ زندگی
حقوق العباد کا لحاظ
حضرت ابراہیمؑ علی السلام ، اپنے حکم اور رفیق القلبی ، شفقت اور باپ سے تعلن خاطر کی بنا پر، حسب وعدہ اپنے باپ کے حق میں دعائے مغفرت کرتے رہے اگرچہ ان سے الگ ہو گئے تھے مگر اللہ تعالی نے حضرت ابراہیمؑ کو مطلع کیاکہ آ زر اپنی عقل واستعداد کوغلط راہوں پر ڈال چکا ہے اور راہ راست پر آنے کی
تمام صلاحیتیں ختم کر ڈالی ہیں اور اب وہ ایمان نہیں لائے گا ۔۔۔۔ خدا کی طرف سے اس اطلاع کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے آزر کے لیے استغفار کو ترک کر دیا۔ سوره توبه قرآن مجید میں حضرت ابرہیم کے ترک استنفار کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
ناحق ایذارسانی کے با وجود بندہ مومن حقوق العباد کا کس قدر پاس ع لحاظ رکھتا ہے حضرت ابراہیمؑ کا عمل، اس کی بین شہادت ہے
فلسطین و مصر
غرض کہ حضرت ابراہیمؑ علی اسلام اسی طرح دعوت حق کے سلسلے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے۔ کچھ دنوں بعد آپ فلسطین پہنے ، اس سفر میں بھی حضرت لوط حضرت ساره اور حضرت لوط کی اہلیہ ، آپ کے ہمراہ تھیں فلسطین کی مغر بی سمت آپ نے سکونت اختیار کی ۔ اس زمانے میں اس علاقے پر کنعانیوں کی حکومت تھی۔ یہاں سے آپ شکیم نا بلس تشریف لے گئے۔ کچھ دنوں قیام کے بعد پھر سفر شروع کیا۔ اور مصر پہنچے جہاں فراعنہ کی حکومت تھی۔ اس وقت کے فرعون نے حضرت سارہؑ کے ساتھ نامناسب حرکت کا مرتکب ہونا چاہا لیکن خدانے آپ کو محفوظ رکھا۔ حدیث کی مشہور کتب بخاری و مسلم نے تفصیلکے ساتھ اس واقعے کو بیان کیا ہے، تورات میں بھی اس کا مفصل ذکرہے، حدیث اور تورات کے بیان واقعہ میں جزوی اختلاف ضرور پایا جاتا ہے مگر مدعا دونوں کا ایک ہی ہے، وہ یی کہ شاہ مصر فرعون جس کا تعلق نسبا سامی خاندان سے تھا اور اسی لیے حضرت ابراہیمؑ سے جو سامی تھے ، خاندانی قرابت رکھتا تھا، جب حضرت ابرا ہیم آپ کے بھتیجے لوط اور آپ کی بیوی سارہؑ مصر پہنچے اور فرعون سے ملاقات ہوئی تو کوئی بات اس نے ضرور ایسی دیکھی جس سے اس کو یقین ہوگیا کہ ابراہیمؑ اور ان کا خاندان مقبول بارگاہ خداوندیہے اور اسی لیے اس نے آپ کا بہت اعزاز واکرام کیا ، مال و متاع سے نوازا اور خاندانی تعلق کو استحکام بخشنے کے لیے اس نے اپنی بیٹی ہاجره ووالده حضرت اسماعیل کو آپ کی زوجیت میں دے دیا۔ جو اس زمانے کے رواج کے مطابق حضرت ساره آپ کی پہلی اور بڑی بیوی کی خادمہ قرار پائیں حضرت ہاجرہؑ ، فرعون کی بیٹی تھیں ، لونڈی نہیں ۔ ان کے لونڈی ہونے کا وہم اس لیے ہوتا ہے کہ فرعون نے حضرت سارہؑ اور حضرت ابراہیمؑ کو اپنی بیٹی حوالے کرتے وقت یہ کہا تھا کہ وہ سارہؑ کی خدمت گزار ر ہے گی خدمت گزار کا وہ مفهوم نہیں جوزرخرید یا خاندانی لونڈی کا ہوتا تھا حضرت ہاجرہؑ کی طرف خادمہ کی نسبت سے، حضرت اسماعیل کی اولاد کو کم درجے کا سمجھ کر یا ظا ہر کر کے بنی اسرائیل کا اپنے خاندانی علو مرتب پر فخر بالکل نا مناسب جوصرف تحریف تورات کا کرشمہ ہے کہ واقعے کی تفصیلات حذف کر کے حضرت ہاجره کے بارے میں صرف لونڈی کا لفظ رہنے دیا گیا۔
0 comments:
Post a Comment