آئینہ کے رکن بنیں ؞؞؞؞؞؞؞ اپنی تخلیقات ہمیں ارسال کریں ؞؞؞؞؞s؞؞s؞؞ ٓآئینہ میں اشتہارات دینے کے لئے رابطہ کریں ؞؞؞؞؞؞؞؞؞ اس بلاگ میں شامل مشمولات کے حوالہ سے شائع کی جاسکتی ہیں۔

Sunday, 10 July 2022

Paigham e Eid - Dr. Shah Hasan Usmani

عید کا پیغام
پروفیسر شاہ حسن عثمانی

قربانی کا ایک بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ سے بے پناہ محبت وتعلق کا اظہار کرے۔ وہ اس کی محبت کو دنیا کی تمام چیزوں کی محبت پر ترجیح دے۔ وہ اس کے لئے اپنی محبوب سے محبوب چیز کو قربانی کرنے میں دریغ نہ محسوس کرے۔ ابراہیم علیہ السلام کو جو قربانی کا حکم دیا گیا تھا اس کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہ تھا کہ جب تک انسان اپنے آپ کو اس مرحلہ تک نہ پہنچاتا اس وقت تک اس کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا اور اس کے اندر ایمان کی حلاوت پیدا نہیں ہوسکتی۔ ایمان کی شرط ہے۔ ”اللہ اور اس کے رسولﷺ انسان کی نظر میں ساری دنیا سے محبوب ہوجائیں“ (بخاری) 
دوسرا اصل مقصر تو نفس کی قربانی ہے۔ جانور کا ذبح کرنا تو صرف ایک علامت ہے۔ اصل چیز تو یہ دیکھنا ہے کہ آدمی نے خود کو کتنا پاک کرلیا ہے۔ خدا تک پہنچنے میں کوئی چیز حائل تو نہیں ہے۔ وہ غیر اللہ سے بالکل کٹ چکا یا نہیں ۔ اس نے اپنے آپ کو دامن میں چھپے ہوۓ شیطان سے نجات دلا یا نہیں۔ اس نے اپنے کعبہ دل کے لات و منات کو توڑا کی ہیں۔ اگر قربانی کرنے کے بعد بھی انسان ان برائیوں سے پاک نہیں ہوا کہ وہ اللہ کے علاوہ دوسری باطل قوتوں پر بھی اعتماد کرتا ہے۔ وہ غیر اللہ کی مدد بھی چاہتا ہے۔ وہ اللہ کے احکام کی پابندی بھی نہیں کرتا۔ اس کے دل میں اسلام پر پورے طور پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ بھی نہیں ہے۔ تو ظاہر ہے ایسی قربانی کیا کام آسکتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی قربانی کے جانور اور اس کے خون کو نہیں دیکھتا۔ وہ تو دراصل حسن نیت،تقویٰ، پاکیزگی اور سپردگی کو دیکھتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ”اللہ تک تمہارے جانوروں کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا۔ لیکن تقویٰ ضرور پہنچتا ہے۔“ (سورہ الحج)۔
 یہی وجہ ہے کہ جب قربانی کا وقت آتا ہے تو بندہ پوری عاجزی و انکساری کے ساتھ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ خدا ہی کے لئے سب کچھ ہے۔ وہی آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ وہی حاکم اور مختار کل ہے۔ اسی کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے۔ ہم اسی کے حکم کے پیرو ہیں۔ میری نماز، میری قربانی ، میرا مرنا، میرا جینا سب کچھ اللہ ہی کے لئے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔
تیسرے یہ کہ ان ہی دنوں میں حجاج کرام منیٰ میں ایام تشریق گزارتے ہیں اور طواف و قربانی کرتے ہیں اور عام مسلمان اپنے گھر میں قربانی کرتے ہیں تو گویا یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ ہم گو حالات حج میں نہیں ہیں مگر حاجیوں کے شریک حال ضرور ہیں۔ قربانی کی اس اہمیت کے بعد کون ایسا بد نصیب ہوگا جو استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی سے اعراض کرتا ہوگا۔ احادیث میں ایسے لوگوں کو موردعتاب ٹھہرایا گیا ہے جو قدرت کے باوجود قربانی نہیں کرتے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو  شخص طاقت رکھتا ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے"۔

(پروفیسر شاہ حسن عثمانی کے خطبات پر مبنی کتابچہ” استقبال ِ رمضان و عیدین“ سے ماخوذ)

0 comments:

Post a Comment

خوش خبری