حضرت مُحمّد ﷺ
عرب کے شہر مکہ میں اب سے کوئی ساڑھے چودہ سو سال پہلے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ آپ کی پیدائش سے کچھ مہینے پہلے آپ کے والد عبد اللہ کا انتقال ہو گیا تھا، اس لیے آپ کے دادا عبد المطلب نے آپ کی پرورش کی۔ جب آپ چھ سال کے تھے، تو آپ کی والدہ بی بی آمنہ کا انتقال ہو گیا۔ آٹھواں سال تھا کہ دادا بھی وفات پا گئے۔
پھر چچا ابو طالب نے آپ کی سر پرستی کی ۔ ذرا بڑے ہو کر آپ نے تجارت کی طرف توجہ کی اور بڑی محنت ، دیانت اور سچائی سے کاروباری معاملات کیے۔ آپ اس قدر ایمان دار تھے کہ لوگ آپ کو امین، یعنی ” امانت والا‘‘ اور ”صادق“، یعنی” سچا‘‘ کہہ کر پکارنے لگے تھے۔ آپ نہ کھی جھوٹ بولتے ، نہ کسی کو دھوکا دیتے ، نہ لین دین کے معاملے میں ٹال مٹول اور نہ کسی بات پر جھگڑتے تھے۔ جو وعدہ کر لیتے، اس کو پورا کرتے ، چاہے اس میں تکلیف اٹھانی پڑے یا اپنا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔
اگر کہیں جھگڑا ہو جاتا تو لوگ فیصلے کے لیے آپ کے پاس آتے ۔ اسی زمانے میں کعبہ کی عمارت کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کی ضرورت پیش آ ئی۔ چونکہ کعبہ تمام عرب میں سب سے زیادہ پاک اور محتر م جکہ سمجھی جاتی تھی ، اس لیے مکہ میں جتنے قبیلے تھے، سب چاہتے تھے یہ کام ہم ہی کریں ۔ جھگڑے سے بچنے کے لیے مختلف حصوں کی تعمیر مختلف قبیلوں کے سپرد کردی گئی ۔ سب نے خوشی خوشی اپنے حصے کا کام پورا کیا لیکن حجر اسود نصب کرنے کے سلسلے میں ایک مشکل آن پڑی ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ عزت ہمارے حصے میں آئے اور عمارت میں حجر اسود کو ہمارے ہی آدمی اٹھا کر اس جگہ لگائیں ۔ کئی روز تک جھگڑ ا ہوتا رہا۔ آخر طے پایا کہ کل جو شخص سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہو، وہ اس کا فیصلہ کرے یا خود ہی حجراسود کو اس کی جگہ پرنصب کردے۔
جانتے ہوا گلے روز کعبے میں سب سے پہلے داخل ہونے والا کون تھا؟ یہ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم تھے۔ سب پکار اٹھے : لووہ امین آگئے، اب یہی اس جھگڑے کا فیصلہ کریں گے ۔ اور پھر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فیصلے نے واقعی سب کو خوش کر دیا۔ آپ نے کہا : ایک بڑی اور مضبوط چادر لاؤ چادر لائی گئی تو آپ نے اپنے ہاتھ سے حجر اسود اٹھا کر اس پر رکھا پھر فرمایا ۔
ہر قبیلے کا سردار آ گے بڑھے اور اس چادر کا ایک ایک سرا اپنے ہاتھوں میں تھام لے۔ اس طرح وہ لوگ حجر اسود کو کعبے کی دیوار کے پاس لے گئے ۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اسے صحیح جگہ پر رکھ دیا۔ اسی طرح ایک بڑا جھگڑا ختم ہوگیا ، سب خوش ہو گئے ، مل جل کر کام کرنے کی برکت ہر ایک کی سمجھ میں آ گئی۔
کا رو بار سے فرصت پا کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اکثر مکہ کے پاس پہاڑیوں میں چلے جاتے اور وہاں غارِ حرا میں اکیلے چپ چاپ عبادت کرتے اور غور و فکر فرماتے ۔ چالیس سال کی عمر میں آپ نے انسا نوں کو خدا کا پیغام سنا یا اور انہیں برائیوں کو چھوڑ نے اور اچھی باتوں کو ماننے کی دعوت دی ۔ جس کتاب میں خدا کا یہ مکمل پیغام ہے اسے قرآن کہتے ہیں۔
جس زمانے میں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے پیغمبر ہونے کا اعلان کیا عرب کی حالت بہت خراب تھی ۔ اکثر عربوں کی زندگی قتل اور لوٹ مار میں گزرتی تھی۔ پورا عرب قبیلوں میں بٹا ہوا تھا۔ یہ قبیلے بہت معمولی باتوں پر آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ لڑائی دادا کے زمانے میں شروع ہوتی تھی تو پوتوں اور پر پوتوں تک چلتی رہتی تھی۔ جب تک ایک قبیلہ ختم نه ہو جاتا لڑائی چلتی رہتی تھی صلح کا کوئی خانہ نہ تھا۔
حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سب مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بتایا۔ ان کے اثرات اور تعلیمات سے قبیلوں کی دشمنیاں ختم ہو گئیں۔ مساوات اور بھائی چارے کا سبق صرف عرب تک محدود نہ رہا۔ جہاں جہاں مسلمان گئے،مساوات کا تحفہ ساتھ لے گئے۔ جن جگہوں پر سماج میں سخت قسم کی اونچ نیچ تھی وہاں بھی مساوات اور بھائی چارے کا تذکرہ ہونے لگا۔
آں حضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے پہلے عرب میں عورتوں کی حالت بہت خراب تھی بعض قبیلے تو بچیوں کو پیدا ہوتے ہی مارڈالتے تھے۔ جن قبیلوں میں پچیاں قتل نہ کی جاتی تھیں، ان میں بھی عورت کی حیثیت لونڈی سے بہتر نہ تھی۔ آں حضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اثر نے نہ صرف یہ قتل و ظلم کو ختم کیا عورت کو سماج میں باوقار درجہ دیا۔ اب عورت ماں باپ کے ورثے میں حصہ پانے لگی ۔ دنیا میں سب سے پہلے اسلام نے عورت کی حالت کو بہتر بنایا ۔ اور بھی طرح طرح کی غلط رسمیں عام تھیں ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ان برائیوں سے روکا ۔ آپ نے تعلیم دی کہ خدا ایک ہے ، وہی عبادت کے لائق ہے اور محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں ۔ اس آواز کا اٹھنا تھا کہ مخالفتوں کا طوفان اٹھ کھٹرا ہوا۔ مکہ کے سرداروں کو اپنی سرداری خطرے میں نظر آنے کی۔ انھوں نے پہلے تو حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا، پھر انھیں طرح طرح کے لالچ دیئے ۔ آپ نے فرمایا :
اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج رکھ دیں اور بائیں ہاتھ میں چا ند تب بھی میں اللہ کے کلام سے ہاتھ نہ اٹھائوں گا یا تو اس کام کوانجام دوں گا یا اپنی جان قر بان کروں گا ۔
پھر مکہ والوں نے آپ کو طرح طرح کی دھمکیاں دیں اور تکلیفیں پہنچائیں کہ یہ آواز دب جائے ۔ ان کا ظلم بڑھتا ہی رہا ۔ وہ راستہ چلتے ہوئے آپ پر گندگی پھینک دیتے۔ دروانے کے سامنے کانٹے بچھا دیتے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو طرح طرح سے ستایا جاتا ۔ آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے ساری مخالفتوں کو تیرہ برس صبر کے ساتھ گزارے اور حق کے راستے سے بالکل نہ ہٹے۔ یہاں تک کہ سنہ 622 عیسوی میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مکہ چھوڑ که مد ینہ چلے گئے۔ آپ کے اس سفر کو ہجرت کہا جا تا ہے۔ اس واقعے سے ایک نیا سن شروع ہوتا ہے۔ جس کو سن ہجری کہا جاتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم جب مدینہ پہنچے تو اس وقت آپ کی عمر ترپن سال تھی۔
مدینے میں کچھ لوگ پہلے ہی سے اسلام قبول کر چکے تھے۔ انھوں نے آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا دل سے استقبال کیا اور ہر طرح کی مہمان داری کی ۔ انھوں نے کہا : یہ آنے والے ہمارے بھائی ہیں ، اس لیے ہمارے مال ودولت میں برابر کے شریک ہیں ۔
مدینہ آکر آپ نے سب سے پہلے ایک مسجد تعمیر کی ۔ سب نے مل کر اس کام میں دل و جان سے حصہ لیا۔ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھی سب کے ساتھ گارا مٹی اور پتھر اٹھا کر لاتے تھے۔ اس طرح ایک چھوٹی سی مسجد بنی۔ اس کے ایک
طرف چھوٹے چھوٹے کمروں میں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور ان کے گھر والے رہتے تھے۔ ان کے لیے کوئی محل تھا نه در بار وہی مسجد سب کچھ تھی۔
مدینہ میں تشریف لانے کے بعد آپ کی مقبولیت اور اثر میں روز بہ روز اضافہ ہوتا گیا اور دس سال کے اندر سارے عرب میں اسلام پھیل گیا۔ آپ نے ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی ۔ بازار سے سودا سلف خود لا تے ، بکری کا دودھ خور دو ہتے ، اپنے کپٹروں کو خود ہی پیوند لگا تے ، بوجھ اٹھاتے ، چانورں کو چارا ڈالتے ، یہاں تک کہ دوسروں کے کام بھی کر دیا کرتے کوئی بیمار ہوتا تو مزاج پرسی کے لیے ضرور تشریف لے جاتے اوراس کی تیمارداری کرتے۔
آپ بچوں سے بہت پیار کر تے تھے، ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھرتے ، ان کے لیے دعا فرماتے۔ ایک بار آپ نے فرمایا : ” بچے تو خدا کے باغ کے پھول ہیں۔“ آپ بچوں سے ہنسی مذاق بھی کرتے اور ان کے ساتھ کھیل میں بھی شریک ہو جاتے۔
ترسٹھ سال کی عمر میں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اور مسجد نبوی کے اسی حجرے میں سپرد خاک کیے گئے جس میں آپ کی وفات ہوئی تھی۔
سوچیے اور بتائیے:
سوال: حضرت مُحمّدؐ کی پیدائش کہاں ہوئی؟
سوال: حضرت مُحمّدؐ کی پیدائش کہاں ہوئی؟
جواب: حضرت مُحمّدؐ کی پیدائش مکّہ میں ہوئی۔
سوال: آپؐ کو "امین" اور "صادق" کیوں کہا جاتا ہے؟
جواب: آپؐ اس قدر ایمان دار تھے کہ لوگ آپؐ کو ”امین“اور ”صادق“کہہ کر پکارتے تھے۔ آپؐ نہ کبھی جھوٹ بولتے، نہ کسی کو دھوکا دیتے،نہ لین دین کے معاملے میں ٹال مٹول اور نہ کسی بات پر جھگڑتے تھے،جو وعدہ کرلیتے اُس کو پورا کرتے۔
سوال: حجرا سود کسے کہتے ہیں؟
جواب: حجرا سود وہ کالا پتھر جو کعبہ کی دیوار میں لگا ہوا ہے اسے حجرا سود کہتے ہیں-
سوال: حضرت مُحّمدؐ نے مل جل کر کام کرنے کا طریقہ کس طرح سمجھایا؟
جواب: حضرت مُحّمدؐ نے ایک بڑی اور مضبوط چادر منگوائی پھر خد آپ نے اپنے ہاتھوں سے حجرا سود کو اٹھاکر اس پر رکھا پھر فرمایا "ہر قبیلے کا سردار آگے بڑھے اور اس چادر کا ایک ایک سِرا اپنے ہاتھوں میں تھام لے"۔اس طرح وہ لوگ حجرا سود کعبے کی دیوار کے پاس لے گئے پھر آپ نے اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر اسے صحیح جگہ پر رکھ دیا۔اس طرح مل جل کر کام کرنے کی برکت ہر ایک کی سمجھ میں آگئی۔
سوال: آپؐ عبادت کرنے اور غورو فکر فرمانے کے لیے کہاں جاتے تھے؟
جواب: آپؐ عبادت کرنے اور غورو فکر فرمانے کے لیے مکہ کے پاس پہاڑیوں میں چلے جاتے اور وہاں غار حرا میں اکیلے چپ چاپ عبادت کرتے اور غور فکر فرماتے۔
سوال: جس کتاب میں خدا کا مکمل پیغام ہے اس کا کیا نام ہے؟
جواب: جس کتاب میں خدا کا مکمل پیغام ہے اس کا نام قرآن ہے۔
دیگر اسباق کے لیے کلک کریں |